مذاکرہ ( طلاق کی شرط پر وقتی نکاح کو ناواقف لوگ حلالہ کہتے ہیں؟ )

حلالہ کیا ہے ؟ مذاکرہ ( ZNN) اسلام آباد ” حلالہ یا تحلیل کا لفظ قرآن مجید کی سورہ بقرہ ، آیت نمبر 230کے لفظ ” تحل ” سے ماخوذ ہے، شرعی اصطلاح میں اس کا معنیجو اسی آیت مبارکہ میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ تین طلاق کے بعداگر عورت پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو نہیں کر سکتیجب تک وہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے اور یہ نکاح طلاق کیشرط پر نہ ہو بلکہ گھر آباد کرنے کی غرض سے ہو اور اگر کسی وجہسے اس کو وہاں بھی طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر فوت ہو جائے توعدت گزارنے کے بعد اگر وہ پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو اس کےلئے اب یہ نکاح حلال ہے ، قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہو سلم میں حلالہ کا یہی مفہوم ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کامفہوم غلط سمجھا جا رہا ہے ، طلاق کی شرط پر وقتی نکاح کو ناواقف لوگ حلالہ کہتے ہیں جو بالکل غیر شرعی ہے، مذاکرہ کے تمامشرکاء کا یہی نقطہ نظر تھا ، حلالہ کا تعلق تین طلاق سے ہے، خواہوہ علیحدہ علیحدہ ہوں اکٹھی تین طلاق ہوں یا ایک ہی لفظ کے ساتھ دی گئی تین طلاق ہوں ، اکٹھی تین طلاق یا ایک لفظ کے ساتھتین طلاق دینا گناہ ہے یہ بدعت ہے اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہو سلم طلاق دینے والے پر ناراض ہوئے ، کیونکہ یکبارگی تین طلاقواقع ہو جاتی ہیں اور گناہ بھی ہوتا ہے ، اسی لئے حضرت عمر رضیاللہ تعالی عنہ اکٹھی تین طلاق دینے والوں کو کوڑے مارتے تھے اورتین طلاق کے واقع ہوجانے کا فیصلہ بھی صادر فرماتے تھے حضرتعثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریمحضرت عبد اللہ بن عباس حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہم یہی فیصلہ کرتے تھے اور تینطلاق کے بعد بلا تحلیل شرعی سابق شوہر کے ساتھ نکاح کو نا جائزسمجھتے تھے یہ حقیقت ہے جس پر صحابہ کرام کے فیصلے موجود ہیں اور جو مستند روایات سے ثابت ہے، رہی کمزور اور مبنی بر وہمروایات کی حیثیت تو وہ سب پر واضح تھی اسی لئے امام ابو حنیفہامام شافعی امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمه الله عليهم میںسے کسی نے ان روایات کو قبول نہیں کیا، سوائے ابن تیمیہ اور انکے شاگرد ابن قیم کے کہ انہوں نے ضعیف اور مبنی بر وہم روایات پراس نظریئے کی بنیاد رکھى کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایکہوتی ہے لیکن ان کے نقش قدم پر چلنے والے بعد کے فقہاء نے اسنظریئے کو مسترد کر دیا اور امت کی غالب اکثریت کے موقف کواپنایا ، فقہ ظاہریہ کے نامور فقیہ ابن حزم ظاہری نے بھی دو ٹوکالفاظ میں کہہ دیا کہ ایک مجلس کی تیں طلاقیں تیں ہی شمار یوتیہیں نا کہ ایک، سعودی عرب کے علماء کی مجلس اعلی جن کا فتویوہاں نافذ ہوتا ہے (هيئة كبار العلماء ) انہوں نے بہت عرصہ پہلے اس مسئلہ پر طویل بحث کرکے تمام روایات کا جائزہ لیا اور مستند احادیث مبارکہ کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا کہ ایک لفظ سے دی جانےوالی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں اور اس کے بعد شوہر پر بیویحرام ہو جاتی ہے اور پہلے شوہر کے ساتھ نکاح بغیر حلالہ شرعیہکے نا جائز ہے ، اس سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ بادشاہی نظامکے تحت چلنے والے بعض ملکوں کی عدالتوں میں اگر قانون خلافشریعت ہے تو تقلید کے بجائے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے الحمد لله … پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کو عمل میںلایا گیا تاکہ وہ اسلامی قوانین کی راہنمائی کرے اور آئین پاکستانکی روشنی میں اسلام کے خلاف قانون سازی نہ ہو، اسلامی نظریاتیکونسل پاکستان نے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے بہت سی سفارشات پیش کی ہیں، تین طلاق کے حوالے سے پاکستان میںرائج عائلی قوانین کی اصلاح کے لئے بھی سفارشات ہیش کی ہیں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سالانہ رپورٹس 2014/15 اور 2018 کے مطابق قانون سازی کے لئے سفارش کی گئی ہے کہاکٹھی تین طلاق دینے پر پابندی عائد کی جائے اور ایسی طلاق دینےوالے کو سزا دی جائے اور اکٹھی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوں گی اور اہل مسلک شیعہ اور اہل حدیت کو اس سے استثناء حاصل ہو گا،اس کی تصدیق مذاکرہ میں شریک چئرمین اسلامی نظریاتی کونسلپاکستان ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے بھی کی یے مذاکرہ میں شریک مجھ سمیت ڈاکٹر مفتی راغب نعیی ، ڈاکٹرقبلہ ایاز اور ڈاکٹر خالد ظہیر کا یہی موقف تھا جو امت کی غالب اکثریت کا ہے البتہ اکٹھی تین طلاق کے وقوع پر مشہور شیعہ عالم علامہ امین شھیدی صاحب کا موقف مختلف تھا آزاد ریاست جموں و کشمیر کے ” امور دینیہ / مذھبی امور” کےسیٹ اپ اور عدالتی نظام میں تین طلاق کا وہی اسلامی قانون رائجہے جس کی قانون سازی کے لئے پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارشات پیش کی ہیں، امور دینیہ آزاد کشمیر نے تمامتحصیل و ضلعی مفتیان کرام کو جمہور امت مسلمہ کے موقف کےمطابق فتوی دینے کے لئے واضح حکم جاری کیا ہے جس کی خلافورزی پر فتوی منسوخ کر دیا جاتا ہے ، یہی اقرب الی الصواب ہےمذاکرہ میں تمام شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حلالہ کے نام پر غیر شرعی سرگرمیوں کو بند کیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کی جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں