دنیا بھر میں کورونا وبا کے دوران عائد پابندیوں پر نرمی لائی جارہی ہے امریکہ ، برطانیہ سمیت متعدد ممالک میں ماسک پہننے کی پابندی اٹھا لی گئی ۔

اردو کا جنازہ ہے, ذرا دھوم سے نکلے

نصاب کو کورس کہا جانے لگا
اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔

ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔

اسلامیات ……
اسلامک سٹڈی بن گئی-

انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی- اسی طرح …..
طبیعیات، فزکس میں’
معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس
میں تبدیل ہوگئے-

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے
اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔

پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔

اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے ۔….
اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛
فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔

پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔

بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔

یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

باقی رہے پرائیویٹ سکول، تو ان کا پوچھیے ہی مت۔
ان کاروباری مراکز تعلیم کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

مکتب نہیں، دکان ہے، بیوپار ہے
مقصد یہاں علم نہیں، روزگار ہے۔

اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔

زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

*باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے *برتن کراکری کہلانے لگے*۔

غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔

مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔

دروازہ اب ڈور کہلایا جانے لگا،
پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔

کمرے کب کے روم بن گئے۔
کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔

“ابو جی” یا “ابا جان” جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
اسی طرح ….
شہد کی طرح میٹھا لفظ “امی” یا امی جان اب تو “ممی” اور مام میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ “انکل اور آنٹی” میں تبدیل ہوگئے۔

بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔

ساری عورتیں آنٹیاں، بن گیٸں

چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے،
نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔

نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔
دکانیں, شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے،
آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔

سڑکیں , روڈز بن گئیں۔

کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔

کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا،
نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے
اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں،
بابو بن گئے کلرک اور چپراسی بن گئے پِیُّٶن

پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے . …… اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔
طوائفیں تو کب کے آرٹسٹ بن گئیں
اور
محبت کو لَوّ کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔
کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔
اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے-
اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں