خالد حسنین خالد رح کیسے تھے بقلم از نم محمد ضیاءالحق گولڑوی

تحریر اگرچہ طویل ہے لیکن یہ اظہارِ عقیدت و محبت ہے اور جہاں محبت کی بات ہو وہاں طوالت نہیں دیکھی جاتی. راقم الحروف محمد ضیاء الحق گولڑوی شاگرد خالد حسنین خالدرح ناظم اعلیٰ جامعہ المصطفی چکوال خالد بھائی رح کی شخصیت پہ لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا اور لکھا جائیگا مگر ناچیز اس قابل نہیں کہ انکی ذات پہ کچھ لکھ سکے۔بس اسے خراج عقیدت کہیے یا اظہارِ محبت. جامعہ میں ان کی تعزیت کیلئے دور و نزدیک سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ رات گئے تک مصروفیات کے باعث وقت نکالنا مشکل ہے. اختصار کے ساتھ اور اپنے لئے ذریعہ نجات سمجھتے ہوئے چند کلمات تحریر کر رہا ہوں جو اپنے لیے قابلِ اعزاز بھی سمجھتا ہوں. غالباً احقر کی عمر سات یا آٹھ برس کی تھی جب پہلی مرتبہ حضرتِ خالد حسنین خالد رح کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا پھر کچھ عرصہ بعد نورِ مجسم نعت اکیڈمی باقاعدہ داخلے کے بعد یہ سلسلہ ِمحبت مزید مضبوط ہوتا گیا ہر آنے والا دن قربت، محبت اور اعتماد کے رشتے کو مضبوط کرتا گیا. آپ سے ناچیز کی محبت و رفاقت کا یہ سلسلہ کم و بیش 26-25 سالوں پر محیط ہے. میرا خالد بھائی کے ساتھ شاگردی کے علاوہ دوستوں اور بھائیوں جیسا تعلق تھا اور ہے۔ بلکہ اکثر وہ خود میرا تعارف یوں فرمایا کرتے کہ “ضیاء، میرا شاگرد بھی ہے، دوست بھی ہے اور چھوٹا بھائی بھی ” ۔لیکن احقر ہمیشہ خود کو آپ رح سے زیادہ تر بطورِ شاگرد آداب کا خیال رکھتے ہوئے بات کرتا، یہ انکا بڑا پن تھا کہ وہ ہمیشہ چھوٹے بھائیوں اور دوستوں کی طرح ہنسی، مزاق اور بلا تکلف بات کیا کرتے. خالد بھائی بڑے آدمی تھے غالباً کسی بزرگ کا قول ہے کہ بڑا وہ ہے جسکی مجلس میں کوئی بھی خود کو چھوٹا نہ محسوس کرے اور یہ بات خالد بھائی کے حلقہ احباب والے جانتے ہیں کہ وہ ذاتی زندگی اور معاملات میں کس اندازِمحبت سے پیش آتے تھے.بلامبالغہ خالد بھائی جیسا انسان صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے بلاشک و شبہ وہ نعت خواں تو بہت اچھے تھے ہی اس پہ کوئی دو رائے نہیں ہے بلکہ میں تو یوں کہونگا کہ وہ فن نعت خوانی کے مجدد تھے انہوں نے اپنے زمانے میں رہتے ہوئے بہت ساری قباحتیں ختم کر کے ایک خوبصورت ٹرینڈ متعارف کروایا کہ بیشتر ان کے ہم عصر اور نئے نعت خواں ان کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں. اس سب سے بڑھ کر وہ بہت اچھے اور بڑے انسان بھی تھے بالکل سیدھے سادھے اور اندر سے بھولے بھالے، ظاہر باطن صاف ستھرا اور پاکیزہ کردار کے مالک. کچھ چیزیں انسان کی فطرت کا حصہ ہوتی ہیں اور ہماری مذہبی حلقوں میں الا ماشاءاللہ حسد،کینہ، بُغض کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے جسکے 1فی صد اثرات خالد بھائی کی شخصیت میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔۔۔ناچیز کو انجمن طلباء اسلام کی اور نعت خوانی کے حوالے سے بڑے بڑے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے جو کشش اور رغبت خالد بھائی کو عطا فرمائی تھی وہ کسی میں نہیں دیکھی بلکہ اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی بقولِ پیر نصیرالدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ اے نصیر ان کو اپنا بنا لیں گے ہمکوئی صورت تو نکلے ملاقات کی جو شخص ایک دفعہ ملتا پھر خالد بھائی کا ہی گرویدہ ہو کے رہ جاتا میں اکثر کہا کرتا کہ خالد بھائی کی محبت بھی جس پہ اپنے پنجے گاڑ لے وہ پھر انہی کا ہو کر رہ جاتا ہے اور اسکا ثبوت انکے جنازے سے ملتا ہے کہ ان کے متعلقین و محبین کے علاوہ کس طرح خلقِ خدا امڈ آئی کہتے ہیں زُبانِ خلق، نقارہءِ خدا لوگوں کا جوق در جوق قافلوں کی صورت میں جنازے میں شرکت کرنا حقیقت میں خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا ثبوت دیتا ہے بلکہ میں اگر یوں کہوں تو بھی نے جا نہیں ہو گا کہ یہ لوگ خود نہیں آئے تھے بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ و رسول کریم کے حکم اور ان کی رضا کے مطابق حاضر ہوئے تھے. یہی وجہ ہے کہ خالد بھائی کے جنازے کو دیکھ کر ہر ایک شخص کو رشک آ رہا تھا. بقولِ خالد محمود خالد نقشبندی صاحب آگئے میری مسیحائی کو رشکِ عیسیٰ دیکھتی رہ گئی حیرت سے یہ دنیا مجھ کوخالد بھائی رح کے نمازِجنازہ اور فاتحہ خوانی میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگ شریک ہوۓ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنے تو نیازی اپنے ہیں غیروں نے بھی ہم سے پیار کیا سب نامِ نبی کا صدقہ ہے اپنی جو یہ عزت ہوتی ہےآج 9 جنوری 2022 ابھی تک تعزیت کا سلسلہ یوں ہی جاری ہے ہزاروں لوگ فاتحہ خوانی کے سلسلہ میں حاضری دے رہے ہیں اور جنازے میں اتنے بڑے جم غفیر ہونے کے بعد بھی جو آتا ہے وہ یہی کہتا ہم نمازِ جنازہ میں نہیں شریک ہوسکے.مُلکِ عزیز میں جو چند بڑے جنازے ہوئے ان کا ایک باعث وفات اور نماز جنازہ کے درمیان ایک دو دن کا فاصلہ بھی تھا لیکن خالد بھائی کا جنازہ ان کے عزیز و اقارب کے مشاورت سے معمول کے مطابق رکھا تھا یہ گمان بھی نہیں تھا عاشقان رسول کی اتنی تعداد جنازے میں حاضر ہوگی. لوگ تو جنازہ دیکھ کے حیران ہیں کہ کتنے زیادہ لوگ شریک تھے اور ہم یہ سوچ رہے کہ یہ ہزاروں لوگ جو تعزیت کے لیے آ رہے ہیں اگر یہ شریک ہوتے تو جنازے کا کیا عالَم ہوتا؟

∆ Khalid Hasnainkhalid is name of discipline… مجھے ایک بات جو اپنے مذہبی حلقوں میں بہت کم دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ترجیحات کی ترتیب نہیں ہوتی اور اس چیز پر خالد بھائی پہلے دن سے تا دم آخر سختی سے کار بند رہے ۔۔۔۔ آپ ترتیب اور اہمیت (perority)کا بہت خیال رکھتے کہ یہ کام اگر فرض ہے تو اسکا یہ درجہ ہے یہ مستحب ہے تو اسکا یہ۔۔۔کبھی بھی مستحبات کو فرائض پہ ترجیح نہیں دی۔۔۔ایک دفعہ میں نے ایک پروگرام میں نعت کے بعد اجازت چاہی تو خطیب صاحب نے بڑے جارحانہ انداز میں کہا جی یہ نعت خواں ہوتے ہی ایسے ہیں وغیرہ وغیرہ تو مجبوراً نہ چاہتے ہوۓ بھی مجھے جواب دینا پڑا کے جناب وعدہ نبھانا مجھ پر فرض تھا وہ میں نے ادا کر دیا، اب محفل میں بیٹھنا میرے لیے زیادہ ١سے زیادہ مستحب ھوگا اور میں ایک دینی ادراہ کا ذمہ دار ہوں وہ ذمہ داری ادا کرنا میرے لئیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے بہرحال انہوں نے بھی پھر بڑی شفقت فرمائی اور اجازت عنایت فرما دی۔۔۔۔بعد میں اس واقعہ کا ذکر خالد بھائی سے کیا پہلے تو قہقہ لگا کر اپنے مخصوص انداز میں ہنس دیے پھر فرمایا بلکل ٹھیک کہا

∆حسن ِسلوک۔۔۔۔اپنے اہل خانہ، رشتہ داروں، دوستوں سب کا بہت خیال رکھتے۔۔۔اور ناجانے کتنے گھرانوں کے اللہ کی طرف سے پالن ہار تھے۔۔۔ ∆منفرد خوبیاں۔۔۔۔خالد بھائی بہت خوش مزاج آدمی ہونے کے ساتھ کم گو انسان بھی تھے بہت زیادہ نہیں بولتے تھے۔۔۔۔میں اکثر لوگوں سے کہا کرتا کہ لوگ گھنٹوں بول کے بھی وہ بات نہیں سمجھا پاتے جو خالد بھائی کی خاموشی سمجھا دیتی تھی۔۔۔۔باریک بیں۔۔۔۔غالباً کسی بزرگ کا قول بھی ہے کہ بندے کے باطن کا اندازہ اسکی خاموشی سے لگایا جا سکتا کہ یعنی اس کی خاموشی کس قدر لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔۔۔اور ہم نے کئی بار دیکھا خالد بھائی جب خاموش ہوتے تو کسی کو اس قدر بے باکی سے بولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی

۔۔۔∆معاملات اور معاہدات۔مفہوم حدیث ِ پاک جب تک لین دین نہ کرو راۓ قائم نہ کرو جامعہ کے معاملات ہوں یا انکا ذاتی گھر جو ابھی زیر تعمیر ہے بنیادوں سے کے کر پلستر تک انہوں نے بہت سارے معاملات میں لین دین فقیر کے ذمہ لگا رکھے تھے میں نے اپنی زندگی میں اس قدر صاف اور کھرا آدمی نہیں دیکھا کہ معاملات میں اس قدر شفاف ہو۔۔۔چاہے وہ کسی حوالہ سے بھی ہوں۔۔۔۔انتہائی خالص، پاکیزہ اور مُنصِف۔۔۔اور کبھی مقررہ وقت سے پہلے بِالتَّاخیر۔۔۔انتہائی مخلص اور پابند تھے، وعدہ ہو یا وقت ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرتے تھے. انتہائی مخلص، صاف گو، اور سیدھا آدمی گویا آپ کی شخصیت “قولاً سدیدا” کا مصداق تھی. ¶ نوازشات۔الحمدللہ خالد بھائی کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ ہر کوئی بلا جھجھک آپ پر اعتماد کرتا اور وہ اگر اپنے چند امور کے حوالہ سے جسکو اشارہ بھی کرتے لوگ جان حاضر کردیتے لیکن انکی نوازشات دیکھئے کہ جس شخص پہ لاکھوں لوگ اعتماد کرتے بِحَمْدِاللہ تعالیٰ ہم انکے اُن گنتی کے چند دوستوں میں شامل ہیں جن پہ خالد بھائی کو ہر حوالہ سے مکمل اعتماد تھا کسی معاملہ پہ ایک صاحب نے کسی غلط فہمی کی بنیاد پر شرارت کی کوشش کی تو جہاں اب انکا مزار مبارک آپ بالکل اسی جگہ کھڑے تھے خالد بھائی نے برجستہ کہا “میری بات غور سے سنو! میں ہر کسی پہ اعتماد نہیں کرتا جس پہ کرتا اندھا اعتماد کرتا اور ھاتھ کا اشارہ زمیں کی جانب کر کے فرمایا یہ اتنا سارا تھا تو میرے ساتھ ہے مَیں اسے تم سے زیادہ بہتر جانتا ۔۔۔زیادہ باتیں مت کرو۔۔۔خالد بھائی کا یہ کہہ دینا میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا اور ہےحقیقت ِحال یہ ہے کہ احقرذرا بھی اس قابل نہیں بس وہ بڑے لوگ تھے اور انہوں نے بڑی بات کہہ دی۔

۔۔۔¶تاثیرِ زبان:- میں نے ایک دو مرتبہ کہا آپ نے (زیر تعمیر )گھر کا منصوبہ ٹھیک نہیں بنایا تو فرمایا کہ “یار! دعا کرو اب مجھے یہاں رہنا نصیب ہو ہمارے خاندان کی تاریخ رہی ہے کہ جب گھر تیار ہو جاتا اور رہنے کی باری آتی تو مالکِ مکان اپنے بنائے ہوئے مکان میں مقیم ہونے کی بجائے آخری آرام گاہ کا مکین ہو جاتا ہے”۔اس دن کے بعد میری ایک ہی دعا رہی اللہ کریم خیر ہی فرمائے اللہ کے اس فقیر کی زبان سے جو بات نکل جاۓ وہ پوری ہوکر رہتی ہے. چونکہ یہاں پہ احقر کا غریب خانہ بھی پڑوس میں ہی یے تو مجھے اکثر شعر کا ایک مصرع سناتے (میرے گھر کے سامنے ترا گھر ہے، ہَیں ضیاءالحق سَجّی سَٹ، اسیں آپس اچ دوہویں بِھرا سالن وٹاساں) آپس میں دونوں بھائی ایک دوسرے کے ساتھ سالن کا تبادلہ کیا کرینگے۔مجھے ہمیشہ ذاتی طور پہ ان نجی باتوںیادوں کا بہت دکھ رہے گا۔مگر اللہ کی رضا پہ راضی رہنے کا حکم ہے۔ ذہن میں یہی سوال تھا کہ اس کا جواب بھی عطا ہو گیا اور یہ شاید یہ بھی ان کا تصرف ہی ہے کہ گھر تو رات گئے تاخیر سے ہی جانا ہوتا ہے. زیادہ وقت تو جامعہ میں ہی گزرتا تو میرے حضور یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تشریف لے آئے ہیں جہاں صبح سے رات گئے “گھر کے سامنے گھر ہے” بس اب اللہ کرے سالن بھی وٹاۓ میراساجن. دعا ہے اللہ کریم ان کو اگلے عالَم میں جنت الفردوس میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ اور پڑوس نصیب فرمائے.ہاۓ وہ وقت وہ باتیں……………! مجھے ایک دفعہ فرمایا کہ میں اپنا دفتر باہر بناؤں گا جسکی چابی میں نے نہ آپ کو دینی نہ نوید صاحب کو. تو جوابأعرض کیا “جناب! تُسیں پہلے وی سانوں شوق نال نئیں بلکہ مجبوری نال ای دیندے او،سانو چابیاں دینا تہاڈی مجبوری اے ان شاءاللہ تسیں فیر وی سانوں دے دیسو.” تو فرمایا “نئیں بچیو! اس دفعہ نئیں مِلنِیں”۔میں تم لوگوں کو دکھاؤں گا کہ ایسے دفتر ہوتے ہیں. میں اپنے سارے کام خود کروں گا، دیکھنا! دفتر کیسے ہوتے ہیں.گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بندہ کہاں سے بول رہا. بڑا بندہ تھا اور بہت بڑی بات کر گیا اور دیکھیے کہ اب اسی جگہ دفتر بھی بنا لیا اور چابیاں مجھے تو کیا نوید بھائی کو بھی نہیں دیں. بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے اپنوں سے.(چابیاں نہ دینے کی وجہ ان کی طبیعت کا انتہائی نفاست پسند ہونا تھا. اکثر دفتر وغیرہ کی صفائی چند بڑے لڑکوں کے ذمے ہوتی ہے. انتہائی اہتمام سے کی جانے والی صفائی سے بھی وہ مطمئن نہیں ہوتے تھے اور فوراََ کسی نہ کسی نقص کی نشاندہی کر دیتے تھے.) وہ بھی اپنے نہ ہوۓ دل بھی گیا ہاتھوں سےایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کاانکی محفل میں نصیر انکے تبسم کی قسم دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا

¶ بے تکلفیاں___ جہاں ان کے خمیر میں خودداری اور غیرت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔وہیں پہ ہم لوگوں کے ساتھ بے تکلفی بھی بے انتہا کیا کرتے تھے. ہزاروں باتیں ہیں کیا کیا بیان کی جائے اور ہم سے بھلا کیا بیان ہو پائے گی

. ¶ میرا اعزاز___ جہاں خالد بھائی کے بچھڑنے کا غم ہے وہیں پہ ایک بات پر ناز بھی بہت ہے جس کا اظہار میں اکثر انکی ظاہری زندگی میں بھی کیا کرتا تھا کہ مجھے مرشد نصیرالدین رح جیسے ملے، اور استاد قبلہ خالد بھائی رح جیسے. یہ میری خوش قسمتی ہے جن کے ساتھ صرف لوگوں کو صرف سلام لینے کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کیا کرنے پڑتے، ہمارے شب و روز انہیں کی سنگت میں گزرتے اور وہ بھی بہت اچھے، بہت پْراعتماد، ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ قربت، محبت پر مشتمل ہوتا. آپ رح حکم کے مطابق جامعہ المصطفی کی شروع سے لےکر اب تک مکمل ذمہ داری فقیر کے سپرد تھی میری قسمت کہ میرے حصے میں انکا حقیقی مشن آیا اور مجھے وہ خود لگا کے گئے ایک دو مرتبہ رخصت بھی چاہی بھی تو فرمایا کہ “اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے پھر، یا تو مَیں باقی تمام مصروفیات ترک کر دوں اور صرف بیٹھ کے اسے چلاؤں یا پھر تم چُپ کر کے لگے رہو. یہ بات سنتے ہی دل سے آواز نکلی” سمعنا واطعنا

“¶ مخفی باتیں __نہ جانے کتنی دفعہ جامعہ کے طلباء کے لئے اپنی جیب سے یونیفارم خرید کے لاۓ اور سادگی دیکھئے خود اپنا سوٹ بھی اسی تھان سے بنواتےلوگ تو سٹیج پر اور ٹیلی ویژن پر بیٹھ کے پڑھنے والے خالد حسنین کو جانتے ہیں اور ہم ٹوٹی ہوئی چارپائی پہ سو جانے والے خالد کو جانتے۔لوگ تو فائیو اسٹارز ھوٹلز میں کھانے اور محفلیں لگانے والے خالد کو جانتے اور ہم مدرسے میں چاۓ کے ساتھ سادہ روٹی کھا کے الحمدللہ رب العالمین کہہ کے مطمئن ہو جانے والے خالد کو۔ لوگوں نے تو قطاروں میں لگ کر اور دَھکّے کھا کے خالد حسنین کی دست بوسی کو اعزاز سمجھا اور ہم نے جامعہ المصطفی کی مسجد، وضو خانے اور کچن کے برتن انہی پاکیزہ ہاتھوں سے دھوتے دیکھا. انہی ہاتھوں سے مسجد میں جھاڑو اور مدرسے میں وائپرز لگاتے دیکھا. لوگوں نے تو خالد حسنین پر پیسے نچھاور ہوتے دیکھے مگر ہم نے انہی پیسوں سے فیصل آباد کے بازاروں میں جامعہ کے طلباء کے لیے کپڑے خریدتے ہوئے دیکھا. لوگوں نے کرولا گاڑی پر سفر کرنے والے خالد کو دیکھا اور ہم نے جامعہ کے معاونین کی خاطر موٹر سائیکل پہ بیٹھ کے کچے اور کٹھن راستوں پر دوستوں کے لیے اجتماعی قربانی کے موقع پر مٹی اور گردوغبار سے لیس ویران جنگلوں میں، اندھیری راتوں میں جانوروں کی خریداری کرتے دیکھا. لوگوں نے خالد پر گلاب کے پھول نچھاور ہوتے ہوئے دیکھے اور ہم نے اسی خالد کو جامعہ کے طلباء کے لیے پیاز کاٹتے ہوئے دیکھا. لوگوں نے ہنستے مسکراتے دیکھا ھم نے عشق رسول اور خوف خدا میں زار و قطار روتے دیکھا المختصر، بلامبالغہ خالد بھائی رح جیسے باکمال، دلیر، مستقل مزاج لوگ صدیوں بعد بھی ملنے کے نہیں. “کوئی ورلیاں موتی لے تریاں” ∆جلوت اور خلوت خالد__خالد بھائی کا عقیدہ ہو یا مؤقف ہو بھری مجلس میں بھی وہی ہوتا اور بند کمرے میں بھی وہی ہوتا. الحمدللہ کردار کے حوالے سے ہم برملا خالد بھائی کی تنہائیوں کے بھی گواہ ہیں کہ وہ انتہائی پاکیزہ تھیں.انتہائی صاحب ِکردار شخصیت تھے.اللہ کریم آپ کے درجات مزید بلند ترین فرمائے. آپ انتہائی بالغ نظر اور بہترین نقاد تھے جس کسی کے حوالے سے کبھی کوئی راۓ دے دی،تو وہ بعینہ وہی ثابت ہوا.جو بات خالد بھائی کی زبان سے نکل گئی وہ ہو کر رہتی. اب کچھ عرصہ سے ایک ہی فکر تھی کہ جامعہ کے معاملات مزید کیسے بہتر سے بہترین بناۓ جائیں.ایک خواہش انکی ظاہری زندگی میں جو پوری نہ ہوسکی وہ یہ کے جو بچے حفظ نہیں کر سکتے اور وہ چھوڑ جاتے انکے لیے ایک ایسے اسلامک سکول سسٹم کا آغاز کیا جائے کہ کم ازکم جو حافظِ قرآن نہیں بن سکتے وہ ایک اچھے انسان اور اچھے مسلمان ضرور بن کر نکلیں۔دعا ہے اللہ کریم ہمیں آپکے مشن (صراطِ مستقیم) دینی و فلاحی کاموں پہ قائم و دائم رکھے ان شاءاللہ جامعہ ٹیم اب جلد ہی ایک اسلامک سکول سسٹم کا آغاز کرنے جارہی ہے جس میں مستحق طلباء کو کھانا ‘ ہاسٹل، یونیفارم سمیت میڈیکل تک تمام سہولیات ادارہ فری مہیا کریگا

¶اظہارِآخری خواہش

خالد بھائی کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ صدیوں پُر ہونے والا نہیں خالد بھائی بھائی جاتے جاتے اپنی ٹیم پہ ایک بھاری ذمہ داری جامعہ المصطفی کی صورت میں چھوڑ کر گئے ہیں بلکہ کبھی کبھار دورانِ سفر مذاق اور بے تکلفی میں ہم ان سے پوچھتے کہ (خالد صاحب دَسّو تہاڈی آخری خواہش کی اے) انتہائی سنجیدگی کے ساتھ فرماتے “یار میری جامعہ کا بہت خیال رکھنا” کیا خبر تھی کہ یہ مذاق کبھی ہمیں اتنا رلائے گا کہ ہم بے بس ہو جائیں گے. اور واقعی ان کا کہا ہمیں پورا ہوگا. دعا ہے اللہ کریم ہمیں انکے اس مشنِ عظیم کو احسن انداز میں آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے راستے کی رکاوٹوں سے ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے√عہدِوفا ____الحمدللہ 2012 میں جامعہ کے سنگِ بنیاد سے لے کر اب تک میں نے اپنا سارا وقت جامعہ کے لیے وقف کیا اور اب تو ان شاءاللہ اپنا جینا، مرنا، تن، من، دھن سب کا سب مزید توانائیوں کے ساتھ جامعہ المصطفی کے لیے صرف ہوگابلکہ اب تو خالد بھائی کی روحانی مدد بھی شاملِ حال ہوگی.ہماری ساری توانائی اور کوشش انکے گلشن جامعہ المصطفی کی تزئین کے لیے ہوگی. ان شاءاللہ جامعہ کی ساری ٹیم کا اب ایک ہی مشن ہے جامعہ کی ترقی اور صرف جامعہ کی ترقی

۔¶بڑے مشن کا بڑا سپاہی___الحمد للہ خالد بھائی رح کا نظریہ واضح اور بہت جامع تھا کبھی چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہ خود وہ الجھے نہ ہی الجھنے دیا ۔۔۔فرماتے تھے کہ “ہم اسلام کے سپاہی ہیں.جینا مرنا اسلام کے لئے ہے ہمیں فروعی اختلافات میں نہیں الجھنا” مرکز حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات مبارکہ ہے آپ کے ساتھ نسبت رکھنے والے خواہ وہ اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں یا حضرات اہلیبت اطہار علیھم السلام ہوں ہم سب کے غلام ہیں اور اس پر کسی قسم کی بحث و تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں.

∆ اظہارِ تشکر۔۔۔ ہماری جامعہ المصطفی کی ساری ٹیم باالخصوص{محمد نوید حیدری’محمدضیاءالحق گولڑوی، مسعوداحمدشاکر، حافظ عامر نواز ٹمہ، حافظ عدنان سیالوی، غلام مصطفی تبسم، چوہدری شیرازعلی خان، نجیب الرحمن، وقاص کاشی ‘ عرفان مہروی ‘ علی نواز اور جامعہ کے اساتذہ و طلباء’ تمام فیملی ممبرز}ان تمام احباب، دوست احباب نعت خواں حضرات علماء و مشائخ کرام کے احسان مند ہیں اور رہیں گے جو انکی بیماری کے دوران تیمارداری، پھر بعدِوصال نمازِجنازہ و فاتحہ خوانی، تعزیت پر دور و نزدیک سے سفر کرکے تشریف لاۓ. تمام مکاتبِ فکر کے حضرات، سیاسی زعماء، مذہبی تنظیمات، ایصال ثواب کی محافل کروانے والوں قرآن کریم ایصال کرنے والوں، تحریریں اور خبریں دینے والے صحافی حضرات الغرض خالد بھائی کی رحلت پر ہر طرح سے جس نے جو بھی کردار ادا کیا اپنی محبت کا جس انداز سے بھی اظہار کیا تمام کے شکر گزار ہیں اور دعا گو ہیں اور رہیں گے ¶ امتحان اور وقت وفا خالد بھائی رح کے چاہنے والے چاہے وہ انکی ٹیم، قریبی دوست ہوں یا شاگرد حضرات سب پہ اب کڑا امتحان ہے انکی قبر مبارک کے ساتھ اب کون کون کون وفا کرتا ہے. امید ہے خالد بھائی کے اس عظیم مشن میں سبھی ہمارے دست و بازو بنیں گے. خالد بھائی کا ہر تعلق دار ہمارے سروں کےتاج ہیں وہ کمی تو کسی صورت پوری نہیں ہو سکتی مگر ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی انہیں کسی گِلے شکوے کا موقع نہ ملے جی چاہتا ہے بس خالد بھائی رح کی باتیں چلتی رہیں اور وقت ختم نہ ہو. قارئین کے قیمتی وقت کا بہت ممنون ہوں دعا ہے اللہ کریم ہمیں جینا بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے ساتھ خدمتِ دین پہ قائم اور خاتمہ بالایمان نصیب فرمائے آمین یارب العالمین جزاک اللہ کریم

اپنا تبصرہ بھیجیں