فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کیا ہے؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جسے 1989 میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے منسلک مالی معاونت کی روک تھام اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کو اس سلسلے میں درپیش خطرات سے بچانے لیے قائم کیا گیا تھا۔

پاکستان کو گرے لسٹ میں کب شامل کیا گیا؟

ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیا تھا۔

پاکستان کو 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا گیا تھا۔

اس فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے رقوم کی فراہمی کو روکنے کے لیے مناسب کوششوں میں ناکام رہے ہوں۔
پاکستان اس سے قبل 2012 سے 2015 تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے پاکستان سے مطالبات

ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کرنے والے لوگوں اور اداروں کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے۔

پاکستان ایسے اقدامات بھی اٹھاتے ہوئے نظر آئے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خطرات کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے ان پر کڑی نظر رکھ رہا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے یہ بھی مطالبہ ہےکہ غیرقانونی طور پر دولت اور اثاثے منتقل کرنے والے ذرائع کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور مختلف ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھائیں۔

پاکستان کے اقدامات

پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنائے جانے کے بعد پاکستان میں سرمایہ لگانے والے ممالک کی تعداد قدرے کم ہو گئی تھی۔

مارچ 2022 میں ہونے والے ریویو میں ٹیررسٹ فنانسنگ کے ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ میں باقی رکھتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ’سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے۔‘

پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی سنہ 2018 میں دی گئی 27 میں سے 26 سفارشات مکمل کر چکا ہے جبکہ سنہ 2021 میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کو قبل از وقت مکمل کر چکا ہے۔

ان دو رہ جانے والی سفارشات میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف عدالتی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات متعارف کروانا باقی تھا۔

گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے؟

ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔

گرے لسٹ میں کون کون سے ممالک شامل ہیں؟

البانیہ، بارباڈوس، برکینا فاسو، کمبوڈیا، جزائر کیمن، ہیٹی، جمیکا، اردن، مالی، مالٹا، مراکش، میانمار،نکاراگوا، پاکستان، پانامہ، فلپائن، سینیگال، جنوبی سوڈان، شام، ترکی، یوگنڈا، متحدہ عرب امارات اور یمن شامل ہیں۔

بلیک لسٹ میں کون کون سے ممالک شامل ہیں؟

ایران اور شمالی کوریا

گرے لسٹ کے پیچھے ’سیاسی مقاصد‘ اور بھارت کا ہاتھ

پاکستان نے متعدد بار الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے پیچھے سیاسی عزائم ہیں مگر فیٹف کی جانب سے ہمیشہ اس تاثر کو رد کیا جاتا رہا ہے۔

جون 2021 کے پیرس میں ہونے والے اجلاس کے بعد فیٹف کے حوالے سے دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی تھی جب بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کے گرے لسٹنگ میں ہونے کے پیچھے بھارت کی کوششوں کا ذکر کیا تھا۔

اٹھارہ جولائی 2021 کو بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں سے خطاب میں کہا تھا کہ مودی حکومت نے یہ یقینی بنایا ہے کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں رہے۔

بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ’بھارتی بیان نہ صرف اس کا اصلی چہرہ بے نقاب کرتا ہے بلکہ فیٹف میں بھارت کے منفی کردار پر پاکستان کے دیرینہ موقف کی بھی تائید کرتا ہے۔‘

معاملات طے ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا؟

پاکستان کو اگر گرے لسٹ سے نکالا جاتا ہے تب بھی معاملات طے ہونے میں وقت درکار ہو گا اور سات سے آٹھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔‘

گرے لسٹ سے نکلنے کی صورت میں ’ایف اے ٹی ایف ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ خود تسلی کر سکیں کہ ان کی سفارشات پر کام مکمل ہو چکا ہے۔

پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا سرمایہ کاروں اور دنیا کے لیے ایک مثبت بات ہو گی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ لگا سکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں