اسلام آباد (زی این این) ممتاز سیاسی رہنما سردار خادم حسین طاہر علامہ محمود احمد تبسم چیئرمین ادارہ افکار صوفیاء نے قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی ک برسی کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں انھیں زبر دست خراج عقیدت ہپیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا نورانی کی شخصیت محد سے لیکر لہد تک کردار ہی کر دار سے عبارت تھی،ان کی شخصیت سیاسی مذہبی و روحانی محاذ پر یکسان اہمیت کی حامل تھی
انہوں نے نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تاریخ ساز کر دار ادا کیا 1973کے آئین میں ان کا کردار اہم تھا جس میں انہوں نے پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے اور اہم اسلامی دفعات شامل کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا وہ آئین ساز کمیٹی کے رکن تھے انہوں نے منکرین ختم نبوت قادیانیوں کو قومی اسمبلی سے متفقہ طور غیر مسلم اقلیت ارار دلانے میں سب سے اہم کر دار ادا کیا قادیانیوں کے خلاف قومی اسمبلی میں ارار داد پیش کرنے کا شرف بھی حاصل کیا جس پر قومی اسمبلی نے 7ستمبر 1974کو متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دیکر 90سالہ قادیانیوں کے فتنے کا خاتمہ کیا انہوں نے کہا کہ مولانا نورانی نے ملک میں نظام مصطفی کی اصطلاح کو متعارف لرایا اور زندگی کے آخری سانس تک مقام مصطفی کے تحفظ اور نظام مصطفی کے نعاذ کیلئے جدو جہہد جاری رکھی مولانانورانی ڈکٹیٹر شپ کے سخت مخالف تھے بکنا،جھکنا ان کا شیوہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ کوئی حکمران مولانا نورانی کو نہ خرید سکا وہ تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے انہوں نے ذولفقار علی بھٹو کے مقابلے میں اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کا الیکشن بھی لڑا آخری وقت میں وہ سینیٹر اور سینیٹ میں قائد خزب اختلاف تھے انہوں نے سیاسی جدوجہد کے ساتھ اپنا مذہبی اور دینی فریضہ بھی سر انجام دیا ورلڈ اسلامک مشن کے پلیٹ فارم سے دین کی اشاعت کیلئے معتدد یورپی اور افریقی ممالک کے دورے کئے سینکڑوں افراد کو دائرہ اسلام مین داخل کیا ان کے والد محترم سفیر اسلام علامہ عبدالحلیم صدیقی کے چھوڑے ہوئے مشن کو جاری رکھا عراق، لیبیا سوڈان کے عوام اور حکمران مولانا نورانی کو عزیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے مولانا نورانی نے ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ کے خاتمے میں بھی بنیادی کر دار ادا کیا چناچہ اس وقت کے اوقام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مولانا نورانی کو فون کرکے ان کا شکریہ ادا کیا مولانا نورانی نے 177کی تحریک نفاز نظام مصطفی کی قیادت کی جسے ملکی تارئیخ میں اہم مقام حاصل ہے انہوں نے نے تمام مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا چناچہ انہوں نے پہلے ملی یکجہتی کونسل اور متحدی مجلس عمل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے وہ چیئرمین بھی رہے ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں اس مین شامل تھیں ان کی قیادت مین ایم ایم اے نے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی، انہوں نے کہا کہ مولانا نورانی کی زندگی کھلی کتاب کی طرح تھی وہ امریکہ کے سخت مخالف تھے انہوں نے عراق پر حملے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ ملک میں اس کیلئے رضار کا ر بھرتی کئے، مولانا نورانی کا عراق کے صدر شہید صدام حسین اور لیبیا کے صدر شہید کرنہ قذافی کے ساتھ ذاتی تعلق تھا وہ عرب ممالک میں باد شاہت کے بھی مخالف تھے ان کی زندگی عشق رسول سے عبارت تھی صلوۃ و سلام اس انداز سے پڑھتے کہ مجنعے پر وجت طاری ہو جاتا وہ حافظ قرآن تھے مسلسل 64سال تک بغیر ناغے رمضان المبارک کی تراویح کے موقع پر قرآن پاک سناتے اس کے علاوہ تہجد کی نماز اور محفل شبینہ میں قرآن پاک سناتے تھے انہوں نے نے ساری زندگی کرائے مکان واقع کراچی صدر میں گزاری وہ مال و دولت سے کوسوں دور رہے، مولانا نورانی پاکستان اور بیرون ممالک عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ان کی زندگی سب کیلئے مشعل راہ ہے، مولانا کی خدمات کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گاوہ 11دسمبر بروز جمعرات 2003میں 78سال کی عمر مین خالق حقیقی سے جا ملے۔