لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کابل ائیرپورٹ بھاگم بھاگ جہازوں کی طرف لپکنے والے کون لوگ ہیں۔
ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو افغانستان پر عرصہ دراز تک قابض رہنے والی غیر مُلکی طاقتوں کے ساتھ رضاء مندی سے یا مجبوراً تعاون کرتے رہے۔ اب سٹوڈنٹس کی طرف سے یقین دہانیوں کے باوجود انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہیں۔
اسی طرح بالکل سادہ لوح/جاہل عوام بھی ہیں، جو سالہا سال سے جنگ زدہ ماحول اور پسماندگی سے تنگ آکر مُلک سے نکل کر اچھے مستقبل کے لیے مغربی ممالک پہنچنا چاہتے ہیں جسے ہم پنجابی میں “ڈنکی لگانا” کہتے ہیں۔ گزشتہ روز کابل کے گلی محلہ میں کسی نے خبر اُڑائی کہ ہر وہ بندہ جو ائیرپورٹ پہنچ جائے اُسے جہازوں میں کینیڈا لیجایا جائے گا، تب سے وہاں جم غفیر جمع ہے۔
اور ان میں کچھ سیکولر طبعیت کے اور روشن خیال لوگ بھی شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سٹوڈنٹس اپنے انداز میں شریعہ نافذ کریں گے جس سے اُن کا جینا حرام ہو جائے گا
سوشل میڈیا پہ چہم گوئیاں عروج پہ ۔