سب سے پہلے میں سید علی گیلانی کے انتقال پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں
سید علی گیلانی کے انتقال پر پوری قوم غمزدہ ہے
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا چھٹے تھنک ٹینک فورم سے خطاب
(مورخہ 2 ستمبر 2021)
سب سے پہلے میں سید علی گیلانی کے انتقال پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں
سید علی گیلانی کے انتقال پر پوری قوم غمزدہ ہے
مجھے دکھ ہے کہ جس طرح ہندوستانی فورسز نے کل رات ان کے گھر کا گھیراؤ کیا وہ انتہائی افسوس ناک ہے
بھارت وہ ان کے نمازجنازہ سے بھی خوفزدہ ہے
میں کل سے شدید اضطراب میں ہوں
ہر کشمیری اور ہر پاکستانی کے یہی جذبات ہیں
وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی خوشبو ان کے راہنما اصولوں کے باعث ہمیشہ تروتازہ رہے گی اور دنیا بھر کے کشمیریوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گی
اب میں دیے گئے موضوع پر اپنے خطاب کی جانب بڑھتا ہوں
ایک اہم موضوع پر آج کا اجلاس منعقد کرنے پر میں منتظمین کو مبارک پیش کرتا ہوں
ہم اپنے ہمسائے میں اہم واقعات رونما ہوتے دیکھ رہیں جن کے خطے اور اجتماعی برادری کے لئے بحیثیت مجموعی دور رس مضمرات ہیں۔
حالات ایک نہایت باریک بینی اور احتیاط سے مرتب کردہ پالیسی کے متقاضی ہیں تاکہ مسائل سے بچا جاسکے اور وہ مقصد حاصل ہوسکے جس کے لئے ہم گزشتہ کئی برس سے محوجستجو ہیں یعنی ایک پرامن اور خوش حال افغانستان کا قیام۔
اس سے قبل کہ میں افغانستان پر ہماری پالیسی کے نمایاں نکات کواجاگر کروں، حالیہ صورتحال پر چندگزارشات سے آپ کو ہماری پالیسی سے متعلق بنیادی تصور واضح ہوجائے گا۔
دو دہائیوں میں عالمی اتحاد نے فوجی انداز فکر اپناتے ہوئے افغانستان میں امن کے حصول کی کوشش کی جو میری دانست میں زمینی حقائق پر مبنی نہیں تھا۔
فوجی حل پر اصرار کے نتیجے میں سیاسی عمل کی راہ میں رکاوٹیں حائل رہیں۔
دوہا امن معاہدہ افغانستان کے قائدین کے لئے ایک نئی امید لایا۔
بدقسمتی سے بین الافغان مذاکرات میں نہایت کم پیش رفت ہوئی۔
غیریقینی کی صورتحال میں مزید پیچیدگی 31 اگست 2021 کو افواج کے انخلاءکے اچانک امریکی اعلان سے پیدا ہوئی۔
افغان قیادت میں افغانوں کو قبول مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کی غیرموجودگی میں بین الاقوامی افواج کے انخلاءنے افغان قیادت کے لئے اپنی نوعیت کے نئے مسائل و مشکلات اور امکانات پیدا کردئیے۔
افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے مزاحمت کے فقدان اور طالبان کے کابل کے تیزی سے ٹیک اوور نے عالمی برادری کو حیران کردیا۔
بظاہر خانہ جنگی کا امکان ٹل گیا ہے۔
معزز خواتین وحضرات
ٹیک اوور کے بعد سے طالبان نے عام معافی، خواتین کے حقوق کے تحفظ، اظہاررائے کی آزادی، روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور اجتماعیت کے حامل سیاسی نظام کے لئے کشادگی کے متعدد اعلانات کئے ہیں۔
طالبان مستقبل کے سیاسی نظام سے متعلق افغان رہنماوں سے بات چیت کررہے ہیں۔
تاہم آج کے دن تک صورتحال نازک ہے۔
کابل ہوائی اڈے کے قریب ’داعش‘ کے دو حملوں میں 170 سے زائد جانوں کا بدقسمتی سے ضیاع ہوا جو نازک صورتحال کی افسوسناک یاددہانی ہے۔
یہ صورتحال زیادہ متقاضی ہے کہ افغان قائدین دانائی کا مظاہرہ کریں۔
یہ صورتحال اس امر کی بھی متقاضی ہے کہ عالمی برادری ایک اجتماعی ذمہ داری کے طورپر اپنے رابطے جاری رکھتے ہوئے امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ پر افغانستان کی مدد کرے۔
ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے۔
معزز خواتین وحضرات
پاکستان واحد ملک تھا جس نے ہمیشہ یہی کہا کہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں۔
مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل پر اپنے پختہ یقین کے ساتھ پاکستان نے امریکہ اور طالبان میں براہ بات چیت کی حمایت کی جس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔
ہم آواز بلند کرتے رہے کہ بین الاقوامی افواج میں انخلاءبین الافغان مذاکرات میں پیش رفت کی مناسبت اور مطابقت سے ہونا چاہئے۔
ہم نے عبوری دورانیہ کو خوش اسلوبی سے یقینی بنانے کی خاطر ذمہ دارانہ اور منظم انداز میں افواج کے انخلاءکی بھی حمایت کی۔
جانی نقصانات اور معیشت دونوں لحاظ سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ہم متاثر ہوئے ہیں۔
افغانستان میں امن واستحکام میں پاکستان سے زیادہ کسی اور ملک کا مفاد نہیں۔
افغانستان میں تنازعہ اور عدم استحکام کا جاری رہنا یقینی طورپر ہمارے مفاد میں نہیں۔
افغانستان کی مجموعی تعمیر میں افغان معاشرے کے تمام طبقات کو ہم نہایت اہم سمجھتے ہیں۔
ہر افغان خواہ وہ تاجک برادری سے ہو، ازبک یا ترکمن یا پشتون ہو، یہ سب مجموعی طور پر اس خوبصورت گلدستے کا حصہ ہیں۔
ہم نے تمام نسلی برادریوں کے ساتھ رابطہ کیا ہے تاکہ متحدہ اور پرامن افغانستان کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کرسکیں۔
موجودہ حالات میں ہم افغانستان میں اجتماعیت کے حامل نظام کے لئے حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہی آگے بڑھنے کا واحد بہتر راستہ ہے۔
ہم طالبان کے اعلانات کو مثبت وحوصلہ افزا سمجھتے ہیں۔
افغان قیادت کو افغان عوام کے مطالبات کو پورا کرنے، اختلافات کو مفاہمت میں ڈھالنے اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کے حصول کے دیرینہ ہدف کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے۔
اجتماعیت کا حامل نظام طالبان کے لئے اہم ہے تاکہ وہ عوام کا اعتماد اور عالمی برادری کی طرف سے قبولیت حاصل کرسکیں۔
اس سے علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔
اس سے خطے کے لئے ہمارے مشترکہ اہداف کو تعبیر دینے میں مدد ملے گی جس میں دہشت گردی کے عفریت سے نجات اور رابطوں میں جوڑنے کے منصوبوں کے جال کے ذریعے عالمی برادری سے مضبوط رابطوں کی استواری شامل ہے۔
’جیو اکنامکس‘ پر ہماری ازسرنو مرکوز کردہ توجہ کے پیش نظر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ’خطے‘ کے جُڑنے کے ثمرات اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا۔
اس مقصد کے حصول کے لئے عالمی برادری کے لئے نہایت اہم ہے کہ افغانستان سے روابط استوار رکھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا موقع افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے لئے یکجا ہونے کی صورت موجود ہے۔
مستقل رابطوں سے مستحکم ٹرانزیشن یقینی ہوگا اور 1990 کو دوہرائے جانے سے بچا جاسکے گا۔
اس نازک مرحلے پر افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
پاکستان ’سہولت کار‘ کا اپنا کردار جاری رکھے گا تاہم ہمارے کردار کو ضامن کے طورپر غلط انداز میں محمول نہ کیاجائے۔
معزز خواتین وحضرات
افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے میرے حالیہ دوروں کے بارے میں آپ کو عرض کرتا چلوں۔
میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے دورے کئے جہاں میں نے ان ممالک کی قیادت سے، ہماری مشترکہ تشویش اور علاقائی انداز فکر اپنانے کی ضرورت پر تفصیلی بات کی۔
میری گفتگو کا محور و مرکز تین نکات پر رہا۔
٭ افغان تنازعے کے سیاسی حل میں سہولت اور اجتماعیت کے حامل سیاسی حل کے حصول میں مدد
٭ سلامتی، انسداد دہشت گردی اور سرحدی انتظام کے شعبوں میں ہمسایہ ممالک میں تعاون کو تیز کرنا تاکہ سمگلنگ، ہیومن ٹریفکنگ اور مہاجرین کے بہاو جیسے مسائل سے نمٹا جاسکے۔
٭ افغانستان اور وسط ایشیاءکے ذریعے علاقائی تجارت، ٹرانزٹ، انفراسٹرکچر، توانائی راہداری، کاروباری روابط اور عوامی رابطوں کو فروغ دیاجائے، جوہماری “جیواکنامکس” پالیسی کا مظہر ہے۔
سب کے خیالات سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ افغانستان کے ہمسائے ہماری تشویش میں مکمل شریک ہیں۔
ہم آنے والے دنوں میں اپنے علاقائی انداز فکر کے لئے کاوشوں کو مزید تیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے تحت اعلی سطح کے رابطوں کا سلسلہ آگے بڑھائیں گے۔
معزز خواتین وحضرات
چند گزارشات میں اس پہلو پر بھی کرنا چاہوں گا کہ ہم نے سفارتکاروں، عملے، بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں، عالمی این جی اوز اور ذرائع ابلاغ کے افراد کے انخلاءکے لئے عالمی کوششوں میں بھرپور سہولت فراہم کی ہے۔
ہم نے بین الوزارتی ایک خصوصی سیل قائم کیا تاکہ ویزا اور آمد سے متعلق امور میں سہولت پیدا ہو۔
کابل میں پاکستانی سفارت خارجہ تیز ترین بنیادوں پر ویزے جاری کررہا ہے۔
پاکستان کے انٹرنیشنل ہوائی اڈوں پر آمد پر ویزے جاری کئے جارہے ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔