اقبال ہم شرمندہ ہیں

سوشل میڈیا ایک ایسا فورم بن چکا ہے جس پہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر وائرل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ بھی سچ ہے کہ اسی سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھتے ہوئے معاشرے کی بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں 14 اگست مینار پاکستان کے سائے تلے اقبال پارک میں ایک خاتون سے 400 کے لگ بھگ مردوں نے ایسی حرکات کی ہیں جسکی وجہ سے دنیابھر میں پاکستانی کمیونٹی کا سر شرم سے جھک گیا ایمنسٹی انٹرنیشنل ہو یا انٹرنیشنل میڈیا تمام فورمز پہ پاکستانی عورت کی عزت کے تحفظ کے حوالے سے بحث چل پڑی کچھ لوگ اس خاتون کے لباس اور مردوں کی وہاں موجودگی کو پلانٹڈ قرار دے رہے ہیں کیا یہ پاکستانی تھے اگر یہ پاکستانی تھے ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کی عزت کے لیے 400 سو میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے یہ خیال آتا کہ میں جس ملک کی آزادی کے دن یہ سب دیکھ رہا ہوں اس تماشے کا حصہ بن رہا ہوں یہ ملک اس مقصد کے لیے نہیں بنا تھا کشمیر کو آزاد کروانے کی بات کرنے والے یہ کیسے نوجوان ہیں جو اپنی آزادی کی قدر و قیمت نہیں جانتے 400 لوگوں میں ایک بھی زندہ ضمیر نہ تھا ایک بھی انسان نہ تھا ایک بھی فکر اقبال کا قائل نہ تھا ایک بھی قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کا قابل فخر شہری نہ تھا جو یہ کہتا کہ میری بہن آپ قابل عزت و احترام ہو اگر ہمارا یہ ملک اسلام کے نام پہ بنا ہے تو اسکی اپنی کچھ روایات ہیں اگر اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی خاتون بغیر محرم کے حج پہ جائے تو آپ اس پر فتن دور میں یہاں کیسے آ گئی۔۔ ان 400 نا مردوں سے مخاطب ہو کہ کہتا کہ تم سب بھی اس دیس کی آن بان اور شان ہو اس ملک کی پہچان تم سے ہے میرے دیس کی پہچان کو مسخ نہ ہونے دینا ہم اس معاشرے سے ہیں اس دین سے تعلق رکھتے ہیں اگر کافر کی بیٹی بھی ہو تو اسکا سر ننگا دیکھ لیں تو ہمارے پیغمبر نے اپنی کالی کملی سے اس کا سر ڈھانپ دیامگر افسوس ہم اتنے آزادی پسند نامراد ٹھرے کہ آباو اجداد نے جس آزادی کے لیے ریل کی پٹری کو اپنے خون سے سیراب کیا اسکو ہم سرے سے بھول ہی گئے جس غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دی وہی ہمارے گلے کا طوق اور پاوں کی زنجیر بن گئی ہم اپنے آپکو آزاد تصور کرتے ہیں 14 اگست کو ہم اس قدر آزاد ہو جاتے ہیں کہ کوئی سکون سے اپنے گھر میں آرام نہ کر سکے ہم اس قدر باجے بجاتے ہیں کہ پوری دنیا کے سفیروں کو پتہ چلے کہ ہم بھی باجے پٹاخے بجا کر آزاد قوم ہیں بحیثیت فرد ملت ہم یہ سوچنے سے قاصر رہتے ہیں کہ جب آپ آزاد ہوتے ہیں تو اسکا مطلب کیا ہوتا ہے میرے نزدیک اسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ جو جس قدر آزاد ہو اس کو اتنی ہی سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے مگر افسوس ہمارا معاشرہ اس قدر ذلت آمیز رویوں کا شکار ہو گیا ہے 400 سو کے بجائے 4000 ہزار بھی ہوں تو ذلت کے ماحول میں ایک بھی غیرت مند پیدا نہیں ہو سکتا یہ سب دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہم روح قائد و اقبال سے معذرت کر لیں کہ جس قوم کے مستقبل کے لیے آپ فکر مند تھے وہ اس قابل ہی نہ تھی۔۔۔ہم شرمندہ بھی نہیں تابندہ بھی نہیں زندہ بھی نہیں

زی اے مصطفوی

اپنا تبصرہ بھیجیں