طاقتور میرے دیس کا وہ غریب بچہ ہے جس کو غربت نے تنگ کیا مفلسی نے مایوس کیا اور پھر وہ جاگیردار کے دروازے پہ گیا کہ وہ میری مدد کرے گا میری داد رسی کرے گا جاگیردار کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے جس کے تحت وہ غربت کا مذاق اڑاتا ہے وڈیرہ سسٹم غربت بھوک اور افلاس میں ڈوبے افراد کو زندہ رکھ کر موت و حیات کی چکی میں پسواتا ہے جو اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کی بھیک مانگنے آیا تھا اسے قاتل بنا کر بے حس بنا دیا جاتا ہے بھوک تو ویسے بھی تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے طاقتور جب اپنی طاقت کا اظہار کرے تو سانحہ ماڈل ٹاون برپا ہوتا ہے بسمہ پوچھتی رہتی ہے میری ماما اور پھوپھو کو کیوں مارا کوئی جواب دینے والا سامنے نہیں آتا زینب کے دکھی باپ کو سامنے بٹھا کر اس کی بے بسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے غریب انکی گاڑیوں کے پہیوں کے نیچے آ جائے اس سے انکو کوئی فرق نہیں پڑتا جب ایسا ماحول بن جائے
طاقتور اگر قتل کر کے اسکا اظہار کرے بھی تو کمزور راہ فرار اختیار کرتا ہے وہ کرے بھی تو کیا ؟ اگر کمزور نہتا شہری ریاستی اداروں کو اپنا چارہ جو سمجھتے ہوئے ڈٹ جاتا ہے تو ہماری عدالتیں اسکو گھسیٹ گھسیٹ کر اس نہج پہ لے آتی ہیں کہ وہ خاموش ہو کر کسی ویرانے میں چلا جائے جہاں زندگی کی چاشنی کا نام و نشان نہ ہو
مظلوم، محکوم ومجبور حق پہ ہونے کے باوجود ڈر جاتا ہے اسکا مطلب ہے ہمارے ملک میں انصاف صرف طاقتور کے لیے ہے
اور اگر کسی بھی معاشرے میں مظلوم طاقتور کو عدالت اور پولیس کا ریفرنس دے کہ میں یہ فیصلہ عدالت سے کرواوں گا طاقتور کانپنے لگے پولیس کے حوالے کرنے کا ریفرنس دے تو اسے اپنی طاقت کمزوری میں بدلتی دکھائی دے اسکا مطلب ہے اس معاشرے میں ادارے کام کررہے ہیں اس معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہے ایسے افراد پہ مشتمل معاشرے کے افراد کو اور انکے اداروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بسمہ ہو 14 نہتے شہری ہوں زینب کا بے بس باپ ہو سب کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی رہی اور ابھی تک یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا قتل بھی سیاسی کلچر بن گیا ایک جماعت دوسری جماعت کے کارکن پہ قاتلانہ حملہ کرے سینکڑوں قتل کروا دیے جائیں قوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ دلیری کا نشان سمجھا جانے لگا ہے ۔۔ اگر ہمارے ملک میں ایسا نظام رائج ہو جائے صرف عدالت اور پولیس ٹھیک کر دی جائے یہ موجودہ حکومت کا پاکستان کی تاریخ میں کارہائے نمایاں ہو گا یہ میری خواہش ہے یہ میری قوم کی دبی ہوئی سوچ ہے اس کا اظہار وزیروں کے سامنے ممکن نہیں جاگیرداروں کے سامنے ممکن نہیں کپتان نے کہا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان کپتان نے کہا تھا میں کرپشن کو ختم کروں گا ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کروں گا مگر ڈھائی سالوں میں ایک فیصلہ بتا دیجیے جس سے یہ تاثر مل سکے کہ واقعی اب دو نہیں ایک پاکستان کے فلسفے پہ ہم گامزن ہو چکے ہیں ۔ 6 ستمبر 1965 کی جنگ اس لیے ہوئی کہ دشمن ہمارے ملک میں داخل ہو کر اپنے پنجے گاڑنا چاہتا تھا تاکہ ہمیں وہ نقصان پہنچا سکے ہمارے اثاثے ہماری شناخت کو مٹا سکے شیر جوانوں نے جانیں قربان کر دیں اپنے ملک میں دشمن کو داخل نہ ہونے دیا پوری دنیا کو پیغام دینے میں کامیاب ہوئے کہ ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں ہم اپنے ملک کے خارجی دشمنوں کو شکست دینے کے لیے شیر جوانوں کو قربان کر بیٹھے اس دشمن نے ہمارے ملک پہ ایک دفعہ وار کیا اسکو شکست دینے کے لیے ملک و قوم ایک ہو گئی دو نہیں ایک پاکستان کی عملی تصویر منظر عام پہ آئی کیونکہ سب کو اپنی بقا خطرے میں نظر آرہی تھی سب کو پتہ چل گیا تھا کہ دشمن کے ارادے خطرناک ہیں مزدور بھی لڑا کسان بھی المختصر 1965 سے زیادہ خطرناک داخلی دشمن ہے جو ہر روز پاکستان کی داخلی سرحدوں پہ حملہ کر رہا ہے اسکے وجود کو کھوکھلا کر رہا ہے ہم ہر روز ملاوٹ کر کے اپنی نسلوں کے وجود کو کھوکھلا کر رہے ہیں ہم چوری کرپشن رشوت خوری کر کے اپنے ملک کی بنیادوں کو ہلا رہے ہیں ہم عدل و انصاف کے نظام کو بولی لگا لگا کہ تباہ و برباد کر رہے ہیں ہم جھوٹ دغا بازی مکاری کر کے اخلاقی قدروں کو پامال کر رہے ہیں نہ ہی کوئی سپاہی آگے بڑھ رہا ہے نہ ہی کپتان چند دنوں پہ محیط فتح کا جشن منانے والے یہ بھول چکے کہ ہم ہر روز ایک جنگ میں ہار رہے ہیں مگر جشن ہم فتح کا مناتے ہیں ان کامبیوں کا وجود بھی خطرے میں ہے اگر ہم بحیثیت قوم بدلنے کی کوشش نہیں کرتے غربت افلاس نا انصافی ظلم زیادتی وجہ داخلی دشمن ہے جو بطور فرد ملت ہمارے وجود کا حصہ ہے جس نے ہمیں کھوکھلا کر دیا ہے اب ہمیں جھوٹ مکاری ملاوٹ لوٹ مار کے خلاف بھی آرمڈ فورس چاہیے جو ہمیں انسانیت سکھا سکے ہمارے اداروں میں انسانیت سے پیار کا جذبہ پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہو دنیا کو پتا چلے کہ پاکستان کے تمام ادارے قومی ادارے ہیں قومی ادارے قومی فیصلے کریں نہ کہ قومی چور ملک سے باہر جائے اپنا علاج معالجہ کروائے اور ککڑی چور ساری زندگی جیل میں گزار دے المختصر عمران خان تحریک انصاف کے بانی ہیں ۔جو لوگ اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیں وہی غدار ہیں وہ عمران خان ہو نواز ہو یا زرداری۔ نیب ہو ایف بی آر ہو یا دفاعی ادارے سب ملک و قوم کے اثاثے ہیں انکو آثار قدیمہ پہ نہیں آنیوالی نسلوں کے مستقبل کے حوالے کردار ادا کرنا چاہیے۔میں آپکو عدالتوں میں گھسیٹوں گا
طاقتور ہوں میں کسی عدالت کو نہیں مانتا جیسے بد کردار ڈائلاگ ختم ہونے چاہیے
تحریر: ظہور احمد مصطفوی