پاکستان کے خلاف جبری تبدیلئ مذھب کا منفی پروپیگنڈہاور ١٨ سال سے کم عمر لوگوں پر اسلام قبول کرنے کی پابندی کا بل۔ تحریر : ضمیر احمد ساجد اسلام آباد(زی این این ) غیر ملکی این جی اوز ، لبرلز اور پاکستان مخالف تحریکوں کیجانب سے دیگر الزامات کی طرح ایک یہ الزام بھی لگایا جاتا ہےکہ پاکستان بالخصوص سندھ میں ہر سال ہندو اور عیسائی بچےاور بچیوں کو زبر دستی مسلمان بنایا جاتا ہے، مختلف اطرافسے ایسی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں جو سراسر الزامات اور کاغذی کارروائی تک محدود ہوتے وہ ثابت نہیں ہوتے ان کا پوریدنیا میں پروپیگنڈا کر کے پاکستان کو بد نام کرنے کی سازش کیجاتی ہے اور پاکستان پر پریشر ڈالا جاتا ہے کہ جبرا مذھب کوتبدیل کرنے کی کارروائیوں کو روکنے کے لئے قانون سازی کی جائےاسی لئے منسٹری آف ہیومن رائٹس کی طرف سے یہ متنازعہ بلپیش کیا گیا ہے جس کے مندرجات قطعا قرآن و سنت کے خلافہیں، یہ وہی بل ہے جس کو سندھ اسمبلی نے پاس کیا تھا مگر گورنر کے دستخط نہ کرنے کی وجہ سے وہ قانون نہیں بن سکاپاکستان کے خلاف اس پروپیگنڈے کا جائزہ لینے کے لئے گزشتہروز چئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نےاسلامی نظریاتی کونسل میں ایک فکری نشست کا اہتمام کیا جسمیں پیر عبد الحق صاحب بھرچونڈی شریف مہمان خصوصی تھےیہ وہ شخصیت ہیں جن پر الزام ہے کہ یہ جبرا اسلام قبول کرواتےہیں ، اور ان کی گفتگو کے بعد ان پر کڑے سوالات کرنے کے لئے اہلعلم کی بڑی تعداد کو مدعو کیا گیا تھا جن میں علماء ، قابل ترینوکلا ، ڈائریکٹر لاء ، ایک سینیٹر ، منسٹری آف ہیومن رائٹس کےنمائندے ، شریعہ کے پروفیسرز ، اور انسانی حقوق کی تنظیموںکے نمائندے شامل تھے ، محترم پیر صاحب نے جامع گفتگو فرمائیپھر سوالات کا سیشن ہوا اور حاضرین نے عرق ریزی سے سوالاتکئے ، تنقیدی سوالات اٹھائے گئے ہر پہلو سے جی بھر کر پرکھا گیاجب محترم پیر صاحب نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جوابدیا تو کوئی تشنگی باقی نہ رہی اور سب کو اطمینان ہو گیا کہ یہالزامات بے بنیاد ہیں اور پاکستان میں کہیں بھی زبر دستی مذھبتبدیل نہیں کروایا جاتا اور اس پر مزید تحقیقات بھی آ گئی ہیںجن سے صاف ظاہر ہے کہ جبرا مذھب تبدیل کروانے کی رپورٹسکا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہےیہ امر متفق علیہ ہے کہ مذھب جبرا کسی پر مسلط نہیں کیا سکتا اسلام نے ” لا اكراه فى الدين ” کی تصریح کے ساتھ اس عمل کوممنوع قرار دے دیا ہے اور اگر کوئی اٹھارہ سال سے کم رضا کارانہطور پر اسلام قبول کرے تو نہ اقلیتوں کو کوئی اعتراض ہے اورنہ اسلام میں کوئی پابندی ہے ، تو اس بل کی تشکیل کی کیا ضرورتتھی اور اسے پاس کیسے کیا جا سکتا ہے جس میں اٹھارہ سال سےکم عمر لوگوں کے اسلام قبول کرنے پر پابندی ہو، اس لئے جس طرحیہ بل سندھ میں قانون نہیں بن سکا اسی طرح اسلام آباد میں بھینہیں بن سکتا ، وزارت مذھبی امور اسلام اباد اور اسلامی نظریاتیکونسل کی خدمات اس حوالے سے قابل تعریف ہیں اور یقینا یہ بلپاکستان میں کبھی بھی قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا کیونکہپاکستان کے آئین کی روشنی میں اسلام کے خلاف کوئی قانون نہیںبن سکتا ، پاکستان میں مقیم غیر مسلم اقلیتوں میں سے اکثر بچےبوڑھے اور جوان اسلام قبول کرتے رہتے ہیں اس کا سبب نہ غربتہے اور نہ جبر ، مالدار گھرانوں کے افراد سندھ میں جب اسلام قبولکرتے ہیں تو ان کے خاندانوں کو اگاہ کیا جاتا ہے اور وہ اپنے عزیزوںکو سمجھاتے بھی ہیں لیکن سوائے دو تین کیسیز کے کوئی واپساپنے پرانے مذھب کی طرف نہیں پلٹا ، وہ اسلام کے صاف و شفافاور پاکیزہ نظام سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتے ہیں ،