عدم کے باسیو! رب راکھا

سانحہ مری ?

گڈو ،پپو ، مُنی ، پاپا ،ماما،دوست احباب مری کی سیر کرنے گئے تھے برف باری دیکھنے کا ارادہ تھا
سب نے پہلے پہل تصاویر بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھیں ، کتنے خوش تھے سب کے سب ؟
انرجی کا کیا لیول تھا؟
کتنے پُر کیف نظارے تھے ؟
پھر زوردار برف باری میں گاڑیاں پھنس گئیں
سب گاڑیوں میں ہیٹر چل رہے تھے،
ٹریفک جام تھا، سب نے سوچا ہیٹر چلا کر گاڑی میں ہی رات گزاری جائے،جس گاڑی کو یہ سب محفوظ سمجھ رہے تھے وہی گاڑی گیس چیمبر بن گئی، برف باری کے باعث گاڑیوں کے سائلنسر یعنی گیس کا ایگزٹ سوراخ بند ہونے سے گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ بھر گئی جبکہ گاڑی میں موجود زندگی کے خواہاں لوگ کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال رہے تھے
گاڑیوں کے شیشے بند تھے
آکسیجن کی آمد کا کوئی راستہ نہ تھا
سفر کی تھکاوٹ سے بہت سے لوگ سو گئے
پھر کاربن مونو آکسائیڈ نے سب کو سُلا دیا
ہائے جانے کس کس ماں کے جگر گوشے سوتے ہی سو گئے
ماں کی آغوش سے نکل کر موت کی آغوش میں چلے گئے ، جانے مرنے والے بچوں کو اُن کی مائیں کیا کیا دلاسے دئیے
ہونگے؟
جانے زندگی بچانے کے لئے کس کس نے کیا کیا جتن کئے ہونگے؟
جانے کس کس نے مدد کے لئے کس کس کو پکارا ہوگا؟
جو مدد نہ مل سکی اُس مدد کی آس میں خود کو اور ماووں نے بچوں کو کیا کیا امیدیں بندھائی ہونگی؟
باپ نے بچوں کو شوہر نے بیوی کو اور بیوی نے شوہر کو بے بسی کے عالم میں آخری بار کس انداز سے دیکھا ہوگا؟
اللہ پاک سے کتنی دعائیں کی ہونگی؟
جینے کے لیے کتنی کوشش کی ہوگی؟
دوسری گاڑیوں میں موجود لوگوں سے کیا کیا باتیں کی ہونگی؟
رافع حاجت کیسے کی ہوگی؟
کھانے کو کچھ تھا گاڑیوں میں یا نہیں تھا؟
وائے قسمت ان کی گاڑیوں کے باہر موت منڈلا رہی تھی اور وہ سب جینے کے خواب آنکھوں میں سجائے ابدی نیند سو گئے ،
گیس تھی سردی تھی یا بھوک جو بھی تھا مگر درجن بھر سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ،
دل خون کے آنسو رو رہا ہے
جانے کیوں لگتا ہے کہ ان ساری موتوں کا ذمہ دار میں ہوں ،
اے مری میں مرنے والوں میں عمر بھر تمہاری بے بسی کی موت کو بھلا نہ سکون گا ،
جب مر کر تمہارے پاس آونگا تو تم سے ملکر تمہاری بے بسی کی موت کا افسوس ضرور کرونگا
اے عدم کے باسیوں رب راکھا?
از نم قلم
افتخار افی ?

اپنا تبصرہ بھیجیں