*جنرل راحیل شریف سے ڈاکٹرطاھرالقادری کی ملاقات تبدیلی نظام تھی جبکہ عمران خان کی ملاقات تبدیلی نظام نہیں تبدیلی اقتدار تھی* جسکا مزہ آج قوم اور مقتدر ادارے دونوں چکھ رہے ہیں( *معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹرسید محمد ہارون بخاری صاحب نے آخر اس ملاقات سے پردہ اٹھا دیا*) 2014 کے دھرنے میں وہ مقام بھی آیا جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات ہوئی۔ دراصل اسی ملاقات کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے راستے بالکل جدا ہو گئے اور ڈاکٹر قادری آہستہ آہستہ دھرنے سے پیچھے ہٹنے لگے۔ ہمیں تو اس ملاقات کی تفصیل کا حال سے عرصہ سے معلوم تھا لیکن تب بیان کرتے تو یار لوگ مذاق اڑاتے لیکن اب شاید صحیح موقع ہے اس ملاقات کی تفصیل کو آشکار کرنے کا۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ملاقات 3 گھنٹے 20 منٹ پر مشتمل تھی۔ جنرل راحیل کے دریافت کرنے پر کہ آپ کا دھرنے کا ایجنڈہ کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے تبدیلیءِ نظام کا ایجنڈہ بیان کیا۔ جب متبادل نظام پر گفتگو کا آغاز ہوا تو جنرل نے اپنے باقی جنرلز کو بھی بلا لیا اور اپنے سیکرٹری کو بھی اور کہا کہ پوائنٹس کو نوٹ کرتا رہے۔ ڈاکٹر صاحب لگاتار 3 گھنٹے متبادل نظام اور اس کے نفاذ کے طریقوں پر بولتے رہے، جنرلز حیرانی سے سنتے رہے، یہ پہلا موقع تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنا ایجنڈہ ملک کی مقتدر قوتوں کے سامنے رکھنے کا موقع ملا تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ختم ہوئی تو انہیں بتایا گیا کہ عالمی قوتوں کے دباؤ کی وجہ سے فی الحال اس ایجنڈے کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کو یہ پیشکش کی گئی کہ ہمیں پتہ ہے کہ اصل دھرنا آپ کا ہے اور آپ کی وجہ سے ہی یہ ساری رونق لگی ہوئی ہے ، انہیں بتایا گیا کہ عوامی رنگ بنانا ہمارا کام ہے جس کے چاہیں حق میں بنا دیں جس کے چاہیں مخالف بنا دیں۔ ڈاکٹر صاحب کو پیشکش کی گئی ہم آپ کو سامنے لے آتے ہیں اقتدار پر لیکن کچھ شرائط کے ساتھ کہ کیبنٹ میں آدھے وزیر ہماری مرضی کے ہوں گے جس میں لال حویلی والے سمیت کئی اور ہوں گے، گجراتیوں سے اتحاد لازمی رکھنا ہو گا، خارجہ اور دفاعی امور میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، اور نظام یہی رہے گا ۔۔۔۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کمپرومائزڈ اقتدار پر معذرت کر لی اور کہا کہ میرا ایجنڈا نظام کی تبدیلی ہے، میں انتظار کر لوں گا، تب تک جب ملک کی مقتدر قوتوں اور عوام کو اس نظام کی خرابیوں کا مکمل شعور نہ آ جائے۔۔۔ یہ ملاقات ناکام ہو گئی۔۔ ڈاکٹر صاحب کو 100 فیصد یقین تھا کہ خان صاحب ضرور اس کمپرومائزڈ اقتدار کو قبول کر چکا ہوگا۔خان صاحب کی جنرل راحیل سے ملاقات صرف 20 منٹ پر مشتمل تھی جس میں وہی شرائط کی پیشکش تھی جو ڈاکٹر قادری کو پیش کی گئی تھی البتہ ایک اضافی شرط بھی تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر زبان بند رکھنی ہو گی۔ خان صاحب نے اس کمپرمائزڈ اقتدار کو قبول کر لیا۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ رنگ بنا دیا گیا ، لال حویلی سے لیکر گجرات تک سے اتحاد کرنا پڑا، خارجہ امور میں ہر جگہ جنرل صاحب ساتھ ساتھ شامل ہوئے جیسے بچے کا دھیان رکھا جائے کہ ہدایات کے خلاف کوئی غلط بات نہ کر دے، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر زبانیں بند کرنا پڑیں۔۔۔۔ اقتدار تو مل گیا لیکن نظام کی تبدیلی کی ہر کوشش دن بدن خواب ہی بنتی گئی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے خاموشی سے اپنا دھرنا آہستہ آہستہ لپیٹ دیا۔ انہوں نے طعن و تشنیع کے تیر سہے لیکن ان کو خبر تھی ان کا راستہ اور ہے اور جنابِ خان کا اور۔۔یہ وہ موقع تھا جو ادھورے اقتدار کی آس اور اپنی ذات پر خوش فہمی کی حد تک زعم نے اصل تبدیلی کا راستہ روک دیا۔ کاش خان صاحب کمپرومائز نہ کرتے اور اپوزیشن میں ہی رہنا قبول کر لیتے، اپوزیشن میں وہ خوب جچتے تھے۔۔ پھر استعفے بھی واپس ہوئے، تھوک کر چاٹنا پڑا لیکن نام نہاد تبدیلی کا خواب کبھی شرمندہءِ تعبیر نہ ہوا۔ اگر وہ 2018 میں بھی اپوزیشن میں ہی رہتے ، ادھوری سی کمزور بے انتہا کمپرومائزڈ حکومت کو قبول نہ کرتے تو آج وہ ایسی قوت بن چکے ہوتے جس کی لکار سے نظام لرزہ براندام ہوا ہوتا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کئی بڑے سر تختہ دار پر لٹکے سامانِ عبرت بنے ہوتے۔ 4- الیکشن 2018 کے بعد حکومت میں آ کر جب ایک ڈیڑھ سال میں خان پر واضح ہو چکا تھا کہ وہ اس نظام کے ان دیکھے شکنجے میں پھنس چکے ہیں اور کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ گجراتی، ایم۔کیو۔ایم، لال حویلیوں کے اتحاد پر کھڑی، پی۔ٹی۔آئی کی صفوں میں شامل گھاگ نالائق سیاستدانوں میں گھری کمزور سی حکومت ذرا سی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔۔۔۔ تو۔۔ اس وقت خان صاحب ہمت کا مظاہرہ کرتے، عوام کے سامنے آ کر عوام کو آگاہ کرتے کہ اس نظام میں رہ کر اس نظام کو تبدیل کرنا نا ممکن ہے، لہذا میں استعفٰی دے رہا ہوں، اس حکومت کو لات مارتا ہوں اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ میرا ساتھ دے کر اس نظام کو گرانے میں میری مدد کریں۔۔ اس عمل سے خان صاحب کی ساکھ کافی حد تک بحال ہو جاتی اور اسٹیبلشمینٹ کی کٹھ پتلی ہونے کا تاثر گہرا نہ ہوتا۔ لیکن خان صاحب کے ارد گرد گھاگ سیاستدانوں نے ان کو سب اچھا کی دلنواز لوری ہمیشہ سنائے رکھی۔5- سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے بعد بھی ایک موقع آ گیا تھا کہ خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے کے راستے پر چلنے کی بجائے عوام کو اعتماد میں لیکر استعفٰی دے دیتے یا اسمبلیاں توڑ دیتے۔ لیکن وہ اس موقع پر بھی کوئی بڑا قدم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔۔ ۔۔۔ اب تو وہ ایسے راستے پر چل پڑے ہیں جہاں قدم قدم پر وہ نئی سے نئی ذلتوں سے آشنا کیے جائیں گے، مزید بے بس کیے جائیں گے اور ان کے تڑپنے کا تماشا دیکھ کر نظام کے رکھوالے حظ اٹھائیں گے۔