اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
یہ تحریر منافع خور مافیاء کے نام ہے معذرت جو انسانیت کا جذبہ رکھتے ہیں
آج سے چند سال پہلے پنجاب سے کراچی جانے والی تیز گام ایکسپریس جولائی کے مہینے میں سندھ کے ریگستان میں خراب ہو گئی۔
ٹرین میں بچے، بوڑھے، خواتین بدترین گرمی میں محصور ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پانی اور دیگر اشیاء بھی ختم ہو گئی اور ٹرین گرمی کی حدت سے تپ کر بھٹی بن چکی تھی جس کی شدت سے بچے اور خواتین بلکنا شروع ہو گئے
اس سے پہلے کہ کوئی بڑا سانحہ ہوتا اور لوگ گرمی کی شدت سے ہلاک ہونا شروع ہوتے، چشم فلک نے دیکھا کہ دور سے لوگوں کا ایک ہجوم آ رہا ہے جنہوں نے ہاتھوں میں پانی کے کولر، کھانے کی دیگیں اور دیگر اشیائےخورد و نوش اٹھائی ہوئی تھیں۔ یہ قریب میں واقع گوٹھ کے رہائشی تھے جنہیں جب ٹرین کے حالات کا پتا چلا تو وہ بلکتے سسکتے مسافروں کے لئے اپنا سب کچھ اٹھا کر لے آئے اس سب کا معاوضہ بھی لینے سے انکار کر دیا۔اب علاقہ تبدیل کرتے ہیں،
سندھ سے900 کلومیٹر دور یہ مری کا علاقہ ہے اور تاریخ ہے 7 جنوری۔ شدید برفباری میں ہزاروں سیاح پھنس چکے ہیں۔ گاڑیوں میں پٹرول ختم ہے، کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو چکی ہیں۔لوگ شدید ٹھنڈ میں اپنی اپنی گاڑیوں میں محصور ہو چکے ہیں۔ شام ہوتے ہی سردی کی شدت مزید بڑھ چکی ہے۔ گاڑیوں کے ہیٹنگ سسٹم کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ صبح ہوتے ہی خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ ان گاڑیوں میں پھنسے لوگ دم گھٹ کے مرنا شروع ہو گئے ہیں آخری اطلاعات تک 30 لوگ جن میں بچے اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے ہلاک ہو چکے ہیں۔
مگر سلام ہے مری کے لوگوں پر جن کے کان پر جوں تک نہی رینگی۔۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ان سیاحوں کو 100 والی چیز 1000 میں بیچتے ہیں۔عام دنوں میں جس ہوٹل کا کرایہ 3000 ہوتا ہے سیزن میں اس کے 15000 ہزار تک لیتے ہیں۔ صرف گاڑی پارک کرنے کے 500 سے1000 روپے تک چارج کرتے ہیں۔۔ مگر ان لوگوں کو توفیق نہی ہونی تھی نا ہوئی۔۔ لوگ تو مر گئے مگر ان کا اصل چہرہ دکھا گئے۔۔ یہ ہوتا ہے روایات کا فرق، رویوں کا فرق، تہذیب کا فرق۔۔۔ باقی اس سارے علاقے میں ایک ادارے کا بہت بڑا سیٹ اپ ہے اور ان کی خاموشی بھی اس سانحے کے حوالےبہت سے سوالات اٹھاتی ہے۔۔ہمارے ملک میں مرنے کے بعد ہی ادارے حرکت میں آتے ہیں جب تک روح جان سے نکل نہیں جاتی کوئی انسانیت کا مظاہرہ نہیں کرتا ہماری انسانیت مردہ جسم کے لیے جاگتی ہےہم مدد کے لیے پہنچے بھی تو اس وقت جب 25 معصوم جانیں لقمہ اجل بن گئیں اب سوشل میڈیا پہ ہر طرف امدادی کام ہو رہے ہیں کل اے ایس آئی کی آواز پہ کرین کیوں نہ آ سکی اسکو بیس گھنٹے کیوں چیخنا پڑا ہمارے پاس کس چیز کی کمی تھی بطور ریاست ہم کیوں غفلت کا شکار ہیں بین الاقوامی سیاح ہمارے ملک کا رخ کیوں کر کریں گے جب ہم مقامی سیاحوں کو ہی سہولیات نہیں دے پا رہے محترم عمران خان وزیر اعظم پاکستان عصر کے بعد نتھیا گلی واک کے لیے ہیلی کا استعمال کر کے پہنچ جاتے تھے اپنی بے بس قوم کے لیے وہ جذبہ کہاں گیا جو وہ تقریروں میں دکھاتے ہیں اگر کوئی یہ دلیل دیتا ہے کہ سب برابر نہیں ہوتے تو میں اس بات سے متفق ہوں راولپنڈی اسلام آباد سے مری کا سفر 45 منٹ کا ہے اگر ہم بحیثیت قوم ادارہ یہ پیغام دینا چاہیں کہ ہم سنجیدہ قوم ہیں تو ہمارے لیے یہ پیغام ہی کافی ہوتا کہ مری اب مزید سیاحوں کو جگہ نہیں دے سکتی ہم کسی اور علاقے کا رخ کریں ہم نے صرف مری جانا ہے کی ضد نے تباہ کر ڈالا اب بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں تاکہ ہم 2022مزید میں کسی ایسے حادثے کا شکار نہ ہوں ۔