تحریر:سید ندیم
حسین پاکستان میں آجکل صدارتی نظام پہ بحث پھر عروج پہ ہے۔ لیکن شاید صرف سوشل میڈیا پہ اور وہ بھی زیادہ تر پی ٹی آئی کے حامی یہ بیانیہ پھیلا رہے ہیں۔ اُن کا یہ خیال ہے۔ کہ عمران خان کی ناکامی پارلیمانی نظام کی وجہ سے ہے۔ اُن کے خیال میں عمران خان ایک بہت بڑا لیڈر ہے۔ جس کی راہ میں مختلف مافیاز حائل ہیں۔
ان مافیاز سے نجات صدارتی نظام سے ممکن ہے۔ کیونکہ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم منتخب اراکین کے ووٹوں کا محتاج ہوتا ہے۔ صدارتی نظام حکومت کا سربراہ ان اراکین کی محتاجی سے آزاد ہو گا۔اس مؤقف میں بجائے خود صدارتی نظام سے لاعِلمی جھلکتی ہے۔
کون کون سے ممالک میں صدارتی نظام نافذ ہے
اس وقت دُنیا کی تین بڑی طاقتوں میں صدارتی نظام نافذ ہے۔ امریکہ، فرانس اور روس۔ اس کے علاوہ بھی کئی ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ اور کامیابی سے چل رہا ہے۔ لیکن کیا وہاں تمام فیصلے صدر اپنے طور پہ کرتا ہے؟ کیا وہاں اسمبلیاں موجود نہیں؟ کیا وہاں صدر ان اسمبلیوں سے بالا بالا کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے؟ ہرگز نہیں۔ آپ یہ سب فیصلے کسی کے “دباؤ” کے بغیر کریں گے تو کیا یہ جمھوریت ہو گی؟ کیا آپ اتنے ہی عقلِ کُل ہیں کہ آپکو کسی مشورے کی ضرورت نہیں؟
پاکستان میں صدارتی ادوار اور پارلیمانی ادوار کا تقابلی جائزہ
یادش بخیر پاکستان کی 74 سال زندگی میں 33 سال براہ راست صدارتی نظام ہی رہا ہے۔ پہلے ایوب خان کے گیارہ سال، یحی’ خان کے 2 سال، ضیاءالحق 11سال اور پرویز مشرف 9 سال۔ یہ چاروں آمر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ان کے پاس بندوق کی طاقت بھی تھی۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا۔ پہلے صدارتی نظام میں مغربی پاکستان میں صنعتی ترقی ضرور ہوئی۔ لیکن جن مافیاز کا رونا رویا جاتا ہے وہ اسی دور میں پروان چڑھے۔ اس ترقی سے بائیس خاندان وجود میں آئے۔ جو پاکستان کی معیشت کے مالک تھے۔ اور تمام سرمایہ کاری مغربی پاکستان میں ہوئی۔ جس سے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی بڑھا جو علیحدگی پہ منتج ہوا۔ 1972ء میں ایوب خان نے خود اس بات کا اقرار کیا کہ وہ 1968ء میں ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان کرنے والے تھے۔ لیکن بوجوہ ایسا نہ کر سکے۔ پھر اسی دور میں بھارت کو تین دریا بیچے گئے۔ 1965ء کی بے مقصد جنگ چھیڑی گئی۔ جس سے ملک کے دونوں بازوؤں میں خلیج بڑھی۔ مجیب الرحمان نے 1970ء کے انتخابات کے دوران جتنی تقریریں کیں۔ تمام تقاریر میں کُھل کے ایوب خان پہ تنقید کی۔ اور انھیں مشرقی پاکستان کے عوام کی زبوں حالی کا ذمہ دار قرار دیا۔ یعنی اس عرصے میں معاشی ترقی کے باوجود ملک تنزلی کیطرف گیا۔ اور ایک بازو کی علیحدگی پہ منتج ہوا۔صدارتی نظام کا دوسرا دور نہایت پُرھنگم رہا۔ یہ عرصہ دوسال پہ محیط تھا۔ اس میں ملک کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔ لیکن انتخابات کے بعد ایک گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔ بھارت سے جنگ ہوئی اور فوجی سربراہ کی موجودگی میں افواج کو تاریخ کی شرمناک ترین شکست ہوئی۔ اور ملک دو لخت ہو گیا۔ یعنی پہلے دونوں ادوار کا حاصل ملک کی جُغرافیائی تقسیم تھا۔ صدارتی نظام کا تیسرا دور بھی ایک رات آسمان سے نازل ہوا۔ اس دور میں ملک کو اپنی مرضی کا اسلامی بنانے کی کوشش ہوئی۔ مذھبی گروہ بندیوں اور انتہا پسندی کی ترویج کی گئی۔ ملک مذھبی انتہا پسندی کے گڑھے میں ایسا گرا کہ ابھی تک نہیں نکل پایا۔ ملک کو افغان جہاد کے نام پہ ایک بے مقصد جنگ میں جھونک دیا گیا۔ ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ سیاچین پہ دشمن نے قبضہ کیا۔ اس دور میں جھوٹ، ناجائز پیسے کی سیاست، دھونس اور دھاندلی کورواج دیا گیا۔ منافرتوں کے وہ بیج بوئے گئے۔ جو اب تناور درخت بن چُکے ہیں۔ اور ابھی تک وطن عزیز کے جسم کو لہو لہو کیئےہوئےہیں۔صدارتی نظام کا چوتھا دور بھی ٹرپل ون برگیڈ کی عنائت تھا۔ اس دور میں ہم پھر کرائے کے بدمعاش بن گئے۔ اور افغان جنگ میں اپنے وسائل جھونک دیئے۔ سپر پاورز کے آلئہ کار بن گئے۔ انھیں اڈے دئیے۔ انھین اپنے ہی ملک پہ ڈرون حملوں کی اجازت دی۔ اپنے ہی شہری ٖڈالروں کے عوض انھیں بیچے۔ اکبر بگٹی جیسے لوگوں کو قتل کیا۔ ملک کودھشت گردی کا تحفہ دیا۔ جس میں ۸۰ ہزار کے لگ بھگ لوگوں کی جانیں گئیں۔ صدر صاحب دوسروں کو مُکا دکھاتے دکھاتے روانہ ہوگئے۔ان چاروں ادوار میں براہ راست صدارتی نظام تھا۔ لیکن پچاس کے عشرے میں گورنر جنرل بھی صدارتی نظام کی ہی ایک شکل تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلیاں بھی توڑیں۔ پھر ضیاءالحق کی آٹھویں ترمیم بھی صدراتی نظام ہی تھی۔ اور اس ترمیم کو استعمال کرتے ہوئے چار بار اسمبلیاں توڑی گئیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی تقریبا» ڈیڑھ سال صدر رہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام کی عمر بہت مختصر ہے۔ سب سے پہلے 1973ء کے آئین میں پاکستان کے نظام کو پارلیمانی قرار دیا گیا۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے آخری چار سال یہی نظام نافذ رہا۔ پھر ضیاء الحق کے دور میں آٹھوین ترمیم متعارف کروائی گئی۔ جس میں صدر بے پناہ اختیارات کا مالک تھا۔ تاآنکہ آصف علی زرداری کی حکومت نےاٹھارویں ترمیم کے ذریعے اس کا مکمل خاتمہ کیا، اور خالص پارلیمانی نظام نافذ کیا۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی 74 سالہ زندگی میں صرف 16 سال پارلیمانی نظام رائج رہا اور 58 سال براہ راست ، گورنر جنرل کی شکل میں اور آٹھویں ترمیم کے تحت صدارتی نظام ہی رہا ہے۔
آج وطن عزیز کے سیاسی نظام میں ہم جو خرابیاں دیکھ رہے ہیں۔ وہ اٹھاون سال سے جاری نظام کی وجہ سے ہیں۔ لیکن الزام اس نظام کو دیا جا رہا ہے۔ جوصرف سولہ سال نافذ رہا۔ اور وہ بھی ان دیکھے سائے میں۔ صدارتی نظام اپنی پوری طاقت اور اختیار سے نافذ رہا ہے۔ دکھاوے کے لیئے انتخابات ہوتے رہے، اسمبلیاں بنتی رہیں۔ لیکن اختیارات کا منبع صدر مملکت ہی رہا۔ جبکہ پارلیمانی نظام کبھی آٹھویں ترمیم کا شکار رہا۔ تو کبھی میمو گیٹ، کبھی پانامہ اور کبھی فارن فنڈنگ کیس کے دباؤ میں رہا۔ افسوس کہ پارلیمانی نظام کے نمائندگان نے بھی اس صورت حال میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں لیکن پارلیمان کو مضبوط نہ کیا۔ پارلیمان کسی بھی ملک کی اجتماعی دانش کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ہم اس کو بائی پاس کر کے فیصلے کرتے رہے۔ اور کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے نظام کے ناکام ہونے میں ایک یہ بھی عنصر شامل ہے۔ذاتی طور پہ میں سمجھتا ہوں کہ نظام صدارتی ہو پارلیمانی وہ عوامی اُمنگوں کا ترجمان ہونا چاھیئے۔ دُنیا کے بیشتر جمھوری ممالک میں یہ دونوں نظام کامیابی سے چل رہے ہیں۔ کیونکہ وہ عوامی اُمنگوں کے ترجمان ہیں۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے۔ کہ ہردو نظام عوام کی بجائے شخصیات اور طبقات کی خواہشات کے مطابق چلتے رہے۔ بھارت ، پاکستان، سری لنکا وغیرہ چونکہ برطانیہ سے آزاد ہوئے اور برطانیہ میں پارلیمانی جمھوریت ہے۔ اس لیئے قدرتی طور پہ ہم نے بھی یہی نظام اپنایا۔ اور آئین میں اسی نظام کو فوقیت دی۔ لیکن عملی طور پہ مختلف اشکال میں صدارتی نظام ہی نافذ رکھا۔ لیکن آزادی کے 74 سال بعد ابھی تک یہ بحث بھی کر رہے ہیں۔ کہ صدارتی نظام ہونا چاھیئے۔ یا پارلیمانی۔ یعنی ہمیں پتہ ہی نہیں کہ کر کیا رہے ہیں۔ اور کرنا کیا چاھتے ہیں۔ چونکہ ہم نے ایک متفقہ آئین میں یہ فیصلہ کیا تھا۔ کہ ملک کا نظام پارلیمانی ہوگا۔ اس لیئے سب سے پہلے یہ نظام تو مکمل طور پہ نافذ کر کے دیکھیں۔ اوراگر صدارتی نطام چاھتے ہیں۔ تو آئین میں تبدیلی کریں۔ جو عوام کے متخب نمائندوں کے ذریعے ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے۔ کہ اس نظام میں غیر مرئی قوتوں کی مداخلت بند ہونی چاھیئے۔ جب تک شیخ رشید جیسے لوگ سر پہ ہاتھ ہونے کی نوید فخریہ طور پہ سناتے رہیں گے۔ آپ صدارتی نظام لے آئیں یا پارلیمانی وہ کامیاب نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ عوام کی بجائے سر پہ کسی اورکا ہاتھ ہونے کا محتاج ہو گا۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ پاکستان مختلف زبانوں ، ثقافتوں اور جُغرافیائی اکائیوں پہ مشتمل ملک ہے۔ اگر اسے متحد رہنا ہے تو تمام اکائیوں کو سُننا ہو گا۔ تمام اکائیوں کو جگہ دینا ہوگی۔ ایسا کریں تو صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی وہ کامیاب ہو گا۔ اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں کیا ہو سکتا ہے اس کا تجربہ ہمیں ہوچُکا ہے۔ تو کیا ہم تاریخ سے سبق حاصل کریں گے؟ اگر نہیں کریں گے تو تاریخ ہمیں مسل کے گزر جائے گی۔