جو بھی ہیرا اس نمک کی سیاسی کان میں جاتا ھے کوئلہ کوئلہ کر دیا جاتا ھے

میں اپنے تمام مخلص خصوصا مذہبی جماعتوں کے سیاسی ورکرز سے ایک سوال کرنے کی اجازت چاہتا ھوں۔

اگر الیکشن لڑ کر یا ووٹ لے کر اور ایم۔آین۔ایز بن کر یا بنا کر یا حکومت میں آ کر یا اس کرپٹ پولیٹیکل الیکٹورل سسٹم میں رہ کر اسلامی نظام۔ نظام مصطفی، مصطفوی انقلاب، یا قرآن و سںنت کا نظام یا خلافت راشدہ کا نظام آسکتا ھوتا تو مولانا مودودی، مولانا محمود (مولانا فضل الرحمان کے والد ) ، مولانا نورانی، مولانا عبدالستار، قاضی حسین احمد، ڈاکٹر طاہر القادری، اور ہر مسلک کے دیگر بہت سے معزز علماء اکرام اور مشائخ اعظام جنہوں نے اس موجودہ کرپٹ پولیٹیکل الیکٹورل سسٹم میں پوری کی پوری عمر اور تمام صلاحیتوں کو بھرپور استعمال کرتے ھوئے اپنی اپنی جماعتوں کے ساتھ بھی اور مختلف وقتوں میں عظیم مذہبی اتحادوں کے ساتھ بھی الیکشنز میں بھرپور حصہ لیا مگر اسلامی نظام کے نفاذ کی طرف ایک انچ بھی کامیابی نہیں مل سکی۔

آخر کیوں؟

قیام پاکستان کے بعد ستر پچھتر سال کی عظیم جدوجہد میں اور اتنے اعلی اور معزز مذہبی لیڈران کی قیادتوں کے باوجود قرآن و سںنت کے نظام کا نفاذ یا پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست اور قوم کو ایک ایماندار، امن و خوشحالی کا نمونہ بنانے میں کیوں کامیاب نہیں ھو سکے۔ بلکہ کرپشن، بدعنوانی، ملاوٹ، ناانصافی، قانون شکنی، نفرت، جہالت، دہشت گردی وغیرہ میں پوری دنیا میں پہلی چند پوزیشنوں پر مسلسل کئی دہائیوں سے براجمان ھیں۔

آخر کیوں؟

یہ سیکولر مائنڈ کے حامل جو ہر شعبے اور کردار میں نالائق ترین تھے۔ اور ھیں۔ کیسے ہمارے پیارے ملک پاکستان اور با کردار، متحد، باہمت، ایماندار قوم پر مسلط ھو گئے؟ آخر کیوں؟ ان چند اور دیگر بہت سے سوال جن کا قوم و ملک کی خوشحالی اور بدحالی کے ساتھ گہرا تعلق ھے۔ یہ سب سوال ایک درد دل اور مخلص پاکستانی اور ایک سچے مسلمان کو پریشان کرتے بیں۔ کہ آخر کیا غلط ھے اور کہاں نقص ھے

جو بھی ہیرا اس نمک کی سیاسی کان میں جاتا ھے کوئلہ کوئلہ کر دیا جاتا ھے۔

وہ ھے۔ یہ کرپٹ پولیٹیکل الیکٹورل سسٹم اور اس سے پیدا شدہ وہ تمام چند گھرانوں کے کرپٹ پولیٹیکل سیاستدان جو ہر طرح کے منفی اور دجالی داخلی اور خارجی شیطانی طاقتوں کے پہلے خفیہ اور اب واضع نمائندے بن کر اس کرپٹ پولیٹیکل الیکٹورل سسٹم کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ھیں۔ بظاہر مخالف ھیں مگر مقصد ایک ہی ھے کہ اس موجودہ کرپٹ پولیٹیکل سسٹم کے نام سے رائج جمہوریت کو بچایا جائے۔ قوم کو ووٹ کے چسکے میں چند کرپٹ لیڈران کے زیر سایہ ملک و قوم کو ہمیشہ غلام بنا کر رکھا جائے۔ آخر نتیجہ یہ نکلتا ھے کہاس کرپٹ پولیٹیکل الیکٹورل سسٹم میں سو بار بھی حصہ لیا جائے اسلامی نظام تو بہت دور کی بات ھے۔ بلکہاس کرپٹ نظام سے پیدا ھونے والے سیاستدان ملک و قوم کا روٹی کپڑا اور مکان تو چھین چکے ھیں اب یہ جان لے کر بھی عوام کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے ہمیں اب اس کرپٹ پولیٹیکل الیکٹورل سسٹم سے نکل کر تمام مخلص قیادتوں اور جماعتوں کو مل کر پورا زور لگا کر اس غلیظ کرپٹ سیاسی نظام سے قوم و ملک کو آزاد کروانا ھو گا۔

تحریر محمد ندیم کھوکھر

اپنا تبصرہ بھیجیں