دنیا بھر میں کورونا وبا کے دوران عائد پابندیوں پر نرمی لائی جارہی ہے امریکہ ، برطانیہ سمیت متعدد ممالک میں ماسک پہننے کی پابندی اٹھا لی گئی ۔

ریاست مدینہ کا ٹیکس فری بازار

اسلامک انٹرپرونرشپ ریاست مدینہ کا ٹیکس فری بازار ۔۔رسول اکرم ﷺ نے مدینہ میں یہودی مارکیٹوں کے مقابلے میں

فوری طور پر اپنے لیے ایک علیحدہ بازار قائم کیا۔ یہ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے بعد دوسرا کام تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لینا چاہیے کہ آپ ؐ نے جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے فرمایا، *’’یہ تمہارا بازار ہے۔ اسے کوئی زمین خرید کر یا عمارتیں تعمیر کر کے تنگ نہیں کرے گا۔ اس بازار پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہو گا‘‘* (ابن ماجہ)۔ اس بازار میں وہی اصول رائج کیا گیا جو مسجد میں آنے کا تھا کہ جو پہلے آئے گا وہ اپنی جگہ منتخب کر لے گا۔ فرمایا، *’’جس طرح مسجد سب کے لیے مشترک ہے اسی طرح بازار بھی سب کے لیے مشترک ہے‘‘*۔ اسلام میں ٹیکس کی اسی قدر ممانعت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، *’’صاحبِ مکس (ٹیکس وصول کرنے والا) جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘* (ابی داؤد، مسند احمد، الدرامی) ایک اور جگہ فرمایا، *’’ٹیکس لینے والا حوضِ کوثر کے جام سے محروم رہے گا‘‘* (ابنِ ماجہ)۔ ٹیکس فری مارکیٹ آج کے جدید دور کی معاشیات کا سب سے سنہرا اصول سمجھا جاتا ہے جسے “ease of doing “buisness کے چند بنیادی تصورات میں شمار کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں کاروبار اور صنعتوں کے فروغ کے لیے ’’ٹیکس فری زون‘‘ بنائے جاتے ہیں۔ اس تصور کی وجہ یہ ہے کہ تاجر کو مکمل طور پر کاروبار میں آسانی دی جائے تاکہ ’’اشیائے صرف‘‘ عوام کو سستی میسر ہوسکیں۔ اس اصول کے علاوہ رسول اکرم ﷺ نے کسانوں، کاریگروں اور مصنوعات تیار کرنے والے کو بھی تحفظ دیا۔ آپؐ نے منع فرمایا کہ اس بازار تک پہنچنے سے پہلے کوئی ان کا مال نہ خرید ے۔ حدیث میں ہے، *’’ہم آگے قافلوں کے پاس خود ہی پہنچ جایا کرتے اور (شہر سے پہلے ہی) ان سے غلہ خرید لیا کرتے تھے۔ لیکن نبی اکرمؐ نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا کہ ہم اس مال کو اسی جگہ پر بیچیں گے جب تک اناج کو بازار میں نہ لائیں‘‘* (صحیح بخاری)۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا *’’کوئی شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور جو مال باہر سے آرہا ہو، اسے آگے جا کر نہ ملے، جب تک وہ بازار میں نہ آئے‘‘* (بخاری)۔ یوں مدینہ کے اس بازار نے ’’مڈل مین‘‘ اور دلال کی جڑ کاٹ کر رکھ دی اور ذخیرہ اندوزی کا بھی راستہ روک لیا۔ یہی وجہ تھی کہ کاشتکار اور دستکار کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملنے لگا اور اس کو ان لوگوں سے نجات مل گئی جو بغیر محنت کے صرف سرمائے کے بل بوتے پر مال خرید کر ان کا استحصال کرتے تھے ۔ مہاجر صحابہ معیشت و تجارت کے میدان کے لوگ تھے ان میں حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما جیسے بین الاقوامی تاجر شامل تھے انہوں نے کچھ ہی عرصے میں یہود کی معاشی اجارہ داری کو جڑ سے اکھاڑ کر ان کے سودی طرز تجارت کو ناکام کر دیا صحابہ کرام کا بازار پھلا پھولا اور یہودی منڈیاں ماند پڑ گئیں یہاں تک یہودیوں کے بازار بھی صحابہ کرام کی دیانت و امانت کے سامنے نہ ٹھہر سکے ۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں